سزائے موت: آخر کب تک؟
14 اکتوبر 2008سن دو ہزار تین سے ہر سال دس اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔
اس موقعہ پر حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل، آئرین خان نے ایک مرتبہ پھر موت کی سزا کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ آئرین خان نے بتایا کہ اس بار ’’ورلڈ کولیشن اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی‘‘ ایشیاء اور بحرالکاہل کے خطّوں کو ٹارگیٹ کررہی ہے۔
’’ اس سال ’ورلڈ کولیشن اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی‘ ایشیائی ممالک کو ہدف بنارہی ہے کیونکہ ایشیاء دنیا کا ایسا حصّہ ہے جہاں موت کی سزا پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایسا خطّہ ہے جہاں صورتحال میں تبدیلی کی امید بھی ہے۔‘‘
امریکہ، جاپان، چین، تائیوان، سعودی عرب، جنوبی کوریا، ایران، پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا موقف ہے کہ یہ سزا انسانی حقوق کی بنیادی ترین اور سنگین خلاف ورزی ہے۔
سزائے موت کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، یا ایچ آر سی پی، کے شریک چئیرمین ، اقبال حیدر کہتے ہیں:
’’ صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ کیونکہ پچھلے سال بھی یہاں چند افراد کو، چند افراد، کو پھانسی دی گئی۔‘‘
تاہم اقبال حیدر اس بات کو خوش آئیند قرار دیتے ہیں کہ سزائے موت کے خلاف پاکستان کے حکمرانوں کی سوچ اور مزاج میں تبدیلی آرہی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تنگ نظر اور سخت گیر موقف کے حامل مذہبی لوگ سزائے موت کے خاتمے میں سب بڑی رکاوٹ ہیں۔
سن انیس سو باسٹھ میں بیلجیم منعقدہ ایک کانفرنس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفّظ کے لئے باقاعدہ طور پر ایک تنظیم تشکیل دی جائے۔ اور اس طرح اسی سال ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نام سے ایک بین الاقوامی تنظیم وجود میں آئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سزائے موت کو ریاستی قتل سے تعبیر کرتی ہے۔ سزائے موت کے بارے میں انسانی حقوق کے تحفّظ کے لئے کام کرنے والی اس بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’’افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسا، یعنی سزائے موت پر عمل درآمد، انصاف کے نام پر کیا جاتا ہے۔‘‘