1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی عرب صنفی مساوات کے فورم کا سربراہ کیوں؟

7 اپریل 2024

بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج اور ملک میں جاری خواتین پر جبر کے باوجود سعودی عرب کو حال ہی میں خواتین کی حیثیت سے متعلق اقوام متحدہ کے کمیشن کا سربراہ منتخب کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4eOih
Frauenrechte in Saudi-Arabien - 64. Kommission der Vereinten Nationen zur Rechtsstellung der Frau
تصویر: Photoshot/picture alliance

عرب بادشاہت  سعودی عرب  کو گزشتہ ہفتے، اقوام متحدہ کے معروف صنفی مساوات فورم، 'کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن‘ یعنی خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔ تاہم اس انتخاب کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہی تھیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے ایک ہفتہ قبل لکھا تھا کہ دوسرے ممالک کو ''سعودی عرب کے اس حیثیت سے منتخب ہونے کی مخالفت کرنی چاہیے کیونکہ اس ریاست میں خواتین کے حقوق کا بہت برا ریکارڈ رہا ہے۔‘‘

یہ فیصلہ 28 مارچ کو منظر عام پر آیا جس کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بھی پریشان ہو گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نیو یارک کے دفتر کی  سربراہ شیرین ٹیڈروس نے گارڈین کو بتایا کہ، ''جو بھی کرسی پر ہے، جو اب اس کمیشن کی سربراہی کر رہا ہے، جیسا کہ اب یہ ذمہ داری  سعودی عرب کو سونپی گئی ہے، وہ اس کمیشن کی منصوبہ بندی، فیصلوں، اسٹاک کے حصول اور آگے اس کی تلاش جیسے عوامل پر اثر انداز ہونے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔‘‘ شیرین ٹیڈروس  کا مزید کہنا تھا، ''اب یہ اہم ذمہ داری  سعودی عرب  کی ہے، لیکن خواتین کے حقوق کے بارے میں سعودی عرب کا اپنا ریکارڈ انتہائی خراب ہے، جو کمیشن کے مینڈیٹ سے کہیں دور ہے۔‘‘

سعودی خواتین تیز رفتار ٹرین چلانے لگیں

یہ ممکن کیسے ہوا؟

'کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن‘ CSW، اقوام متحدہ کے 45 رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے، CSW اراکین کا انتخاب جغرافیائی اعتبار سے کیا جاتا ہے اس لیے افریقہ سے 13، ایشیا سے 11، لاطینی امریکہ اور کیریبین سے نو، مغربی یورپ اور دیگر ریاستوں سے آٹھ، اور مشرقی یورپ سے چار اراکین چُنے جاتے ہیں۔ ہر رکن ریاست چار سال تک خدمات انجام دیتی ہے۔ سعودی عرب جو ایشیا بلاک کا حصہ ہے، 2027 ء تک کے لیے اس کا رکن ہے۔

Frauenrechte in Saudi-Arabien - Internationaler Frauentag
سعودی عرب تیزی سے مغربی اقدار کی طرف بڑھ رہا ہےتصویر: JMP/ABACA/picture alliance

 CSW ہر سال ایک سالانہ کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے، جس میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں، جس کے دوران خواتین کے مساوی حقوق کی طرف پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ایک بیان جسے ''نتائج کی دستاویز‘‘ یا ''متفقہ نتائج‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، پر گفت و شنید ہوتی ہے۔  بعد ازاں اسے شائع کیا جاتا ہے۔

CSW کے پاس ایک ''لیڈرشپ بیورو‘‘ بھی ہے، جو ہر بلاک کے ایک رکن پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک ''روٹیٹنگ چیئر‘‘ بھی ہے، جس میں ہر بلاک سے ایک رکن ہر دو سال پر اپنی باری کے حساب سے ذمہ داری سنبھالتا ہے۔

ابھی حال ہی میں، ایشیا کی باری آئی ہے، فلپائن کو CSW کے بیورو کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ وہ  صرف 2024 ء تک ہی CSW کا رکن ہے، منیلا نے  ذمہ داری بانٹنے کا منصوبہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایشیا کے گروپ کے ایک اور ملک کو قیادت کے آخری سال کی ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دی گئی اور اس طرح سعودی عرب کو یہ موقع مل ہو گیا۔

فیصلے سے متعلق تحفظات


ہیومن رائٹس واچ میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر لوئس چاربونیو نے اس فیصلے سے قبل ہی تحریر کیا، ''اقوام متحدہ کے مغربی علاقائی گروپ کے سفارت کاروں نے نجی طور پر سعودی عرب کی امیدواری کے مسائل کو تسلیم کیا، لیکن وہ اس کی مخالفت کرنے یا ریکارڈ شدہ ووٹ کا مطالبہ کرنے کا ارادہ نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ وہ کوئی قانونی نظیر نہیں بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

Saudi-Arabien | Geschäftsfrau
سعودی عرب میں اب خواتین ٹریڈ اور کامرس کی فیلڈ میں سرکردہ نظر آرہی ہیںتصویر: Fayez Nureldine/AFP

یہ پوسٹ کتنی طاقتور ہے؟

اقوام متحدہ میں سعودی عرب  کے سفیر عبدالعزیز بن محمد الواصل 2025 ء میں CSW کے بیورو کی قیادت کریں گے، جو 1946ء میں CSW کی تشکیل کے بعد سے ایسا کرنے والے پہلے سعودی سفارت کار ہیں۔

سعودی ڈی جے خواتین روایتی تھاپ کو بدلتے ہوئے

اقوام متحدہ کی خواتین کی ترجمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''سی ایس ڈبلیو کی نو منتخب چیئر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کمیشن کی قیادت میں اپنے سے قبل کے سربراہوں کے کاموں کو آگے بڑھائیں گے۔‘‘ اس میں اہداف کو آگے بڑھانا بھی شامل ہے جسے بیجنگ اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ قرارداد ستمبر 1995ء  میں 189 ممالک کی طرف سے منظور کی گئی تھی۔ اسے صنفی مساوات میں ایک سنگ میل قرار دیا جاتا ہے اور اگلے سال اس کی 30 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔

سعودی عرب کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ ملک صنفی مساوات پر اقوام متحدہ کی پوزیشن پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے، مثال کے طور پر، اگلے سال ہونے والی CSW کانفرنس۔

سعودی  عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ، ''بادشاہت کی اقوام متحدہ کے صنفی مساوات فورم، ''خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن‘‘ کی سربراہی کا سہرا یہاں کی لیڈرشپ کے سر ہے جس نے خواتین کو با اختیار بنانے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے بے حد کام کیا ہے۔ سعودی عرب کا وژن 2030 ء خواتین کو سماجی اور اقتصادی شعبوں میں شرکت کا بھرپور موقع دیتا ہے۔

کیتھرین شیئر (ک م/ا ب ا)