سعودی عرب، ساتھی يا دہشت گردی کا مالی سرپرست
2 اگست 2011باراک اوباما نے سعودی فرمانروا عبداللہ سے کہا تھا کہ دونوں ممالک ’نہ صرف اقتصادی بلکہ حربی دفاعی لحاظ سے بھی ايک دوسرے کے رفيق ہيں۔‘ اوباما نے سعودی بادشاہ کی ’دانشمندی اور تواضع‘ کی تعريف بھی کی تھی۔
ليکن اگر وکی ليکس کی طرف سے شائع کی جانے والی خفيہ امريکی دستا ويزات کو مان ليا جائے تو اوباما کی وزير خارجہ ہليری کلنٹن اسی سال کے دوران سعودی عرب سے غير مطمئن تھيں۔ اُنہوں نے ايک حکومتی ميمورنڈم ميں لکھا تھا: ’’سعودی حکام کو اس بات کا قائل کرنا ايک مستقل چيلنج ہے کہ سعودی عرب سے دہشت گردوں کی مالی مدد کے مسئلے کو ترجيحی اہميت حاصل ہونا چاہيے۔‘‘ اس تنقيد کا نقطہء عروج ان الفاظ کو قرار ديا جا سکتا ہے: ’’سعودی عرب سے ملنے والی رقوم دنيا بھر ميں سنّی دہشت گرد گروپوں کو حاصل ہونے والی اہم مالی مدد ہيں۔‘‘
اوباما اور اُن کی وزير خارجہ کے بيانات کے تضاد کو دونوں ملکوں کے پيچيدہ تعلقات کی ايک مخصوص مثال کہا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطٰی ميں امريکہ کو تيل فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے۔ ليکن اس کے علاوہ امريکہ سعودی عرب کو ايک حربی دفاعی حليف اور ايران کے بڑھتے ہوئے اثر کے مقابلے کے ليے بھی مددگار سمجھتا ہے۔ امريکہ يہ بھی سمجھتا ہے کہ سعودی عرب ايک ايسا ملک ہے، جو سفارتی کوششوں سے علاقے کے تنازعات کے حل ميں مدد ديتا ہے۔
ليکن دوسر ی طرف سعودی عرب ميں ايسی بہت سی باتيں ہيں، جن کی وجہ سے امريکہ دوسرے ملکوں پر تنقيد کرتا رہتا ہے۔ ان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزياں، مذہبی آزادی کی کمی، ميڈيا پر سنسر ، مردوں اور عورتوں کے يکساں حقوق نہ ہونا شامل ہے۔ ان ميں سے اکثرکا ذمہ دار سعودی عرب ميں ’وہابيت‘ کے مبينہ طور پر’ رياستی نظريے‘ کو قرار ديا جاتا ہے۔ اس ليے بہت سے ماہرين کو اس پر حيرت نہيں ہے کہ 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں ميں ملوث اکثريت سعوديوں کی تھی۔
برلن ميں سياسی علوم کی فاؤنڈيشن کے دہشت گردی اور اسلامی شدت پسندی کے امور کے ماہر گيڈو اشٹائن برگ کے خيال ميں سعودی فرمانروا عبداللہ احتياط کے ساتھ اصلاحات کی کوششيں تو کر رہے ہيں، ليکن القاعدہ اور وہابيت ميں بہت سی باتيں مشترک ہيں۔ ’’اس وجہ سے بہت سے نوجوان سعودی اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں سيکھی ہوئی باتوں کی بنياد پر دہشت گردی کی راہ اپنا ليتے ہيں۔‘‘ ليکن اشٹائن برگ کا يہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کی قيادت يہ ماننے کے ليے تيار نہيں ہے کہ اُس کے رياستی نظريے اور القاعدہ کے نظريات کے درميان قربت ہے۔
ماہرين کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے مستقل طور پر لاکھوں ڈالر سے بھرے ہوئے بريف کيس افغانستان يا پاکستان لائے جاتے ہيں، جنہيں دہشت گردی کی تربيت کے کيمپوں ميں تقسيم کيا جاتا ہے۔ ليکن يہ نجی سطح پر ہوتا ہے اور سرکاری حکام اس سے بے خبر رہتے ہيں۔ صرف يہ ممکن ہے کہ انفرادی طور پر بعض سرکاری اہلکاروں کو اس کا علم ہو۔
القاعدہ کو رقم صرف سعودی عرب اور خليج کے ممالک ہی سے نہيں ملتی بلکہ اسے انٹرنيٹ کے ذريعے اور يورپ سے بھی چندے وصول ہوتے ہيں۔