1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں انڈونیشی خاتون کا سر قلم: جکارتہ کا سخت احتجاج

کشور مصطفیٰ15 اپریل 2015

سعودی عرب میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی ایک گھریلو خادمہ کے سر قلم کر دینے کے واقعے کے سلسلے میں جکارتہ حکام نے انڈونیشیا متعینہ سعودی سفیر کو طلب کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F8vg
تصویر: Ulet Ifansasti/Getty Images

سعودی حکام کے مطابق سیتی زینب کو منگل کے روز مسلمانوں کے مقدس شہر مدینے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ زینب کو سزائے موت اُس پر لگے اُن الزامات کے ثابت ہونے کے بعد دی گئی، جس کے مطابق اُس نے 1999ء میں ایک سعودی خاتون نور الموروبائی کو زدو کوب کرکے اور اُسے چھُرا مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

جکارتہ حکام کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے نہ تو زینب کے گھر والوں نہ ہی سعودی عرب میں قائم انڈونیشی قونصل خانے کو اُس کی موت کی سزا پر عملدرآمد کی پیشگی اطلاع دی تھی۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں نے زینب کیس کو استعمال کرتے ہوئے جکارتہ حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ موت کی سزا کی حمایت چھوڑ دے۔ انڈونیشیا میں موت کی سزا دیے جانے کی روایت برقرار ہے اور جکارتہ حکام اس کے تحت آئندہ بھی متعدد ایسے غیر ملکیوں کو پھانسی کی سزا دینے کے منصوبے پر قائم ہے، جو منشیات سے متعلق جرائم کے مرتکب رہے ہیں۔

Bangladesh Protest
بنگلہ دیش میں سر قلم کرنے کی سزا اکثر و بیشتر دی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

انڈو نیشی صدر جوکو وِدو دو اور اُن کے تین پیش رو صدور سعودی فرمانروا سے تحریری طور پر یہ تقاضہ کر چُکے تھے کہ مقتولہ سعودی خاتون کے گھر والوں سے زینب کے لیے معافی کی درخواست کی جائے۔ زینب کے گھر والوں اور انڈونیشی قونصل خانے کی طرف سے اس شکایت کے باوجود کہ انہیں زینب کو سزائے موت دینے سے پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا، زینب کی سزائے موت پر عملدرآمد ہو گیا۔

انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کی طرف سے منگل کی شام دیر سے دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ’’زینب کے کیس میں شروع سے ہی حکومت نے اُس کی مدد کرنے کی کوشش کی اور مقتولہ کی فیملی سے معافی کی درخواست بھی کی گئی تھی۔‘‘ اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ انڈونیشی حکومت نے سعودی حکومت کے خلاف احتجاج دائر کروایا تھا کہ زینب کو پھانسی دیے جانے کی تاریخ کے بارے میں اُس کے گھر والوں یا انڈونیشی حکومت کے نمائندوں کو کوئی نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔

Indonesien Arbeiterin Saudi-Arabien Protest Menschenrechte
جکارتہ میں سعودی سفارتخانے کے سامنے انسانی حقوق کے لیے سر گرم عناصر کا احتجاجتصویر: picture alliance/dpa

اُدھر سعودی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ زینب کی سزا پر عملدرآمد کے لیے مقتولہ کے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کیا گیا تھا تاکہ وہ عمر کے اُس حصے میں آ جائیں، جہاں وہ یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوں کہ آیا زینب کو پھانسی دی جائے یا اُسے معاف کر دیا جائے۔

دریں اثناء جکارتہ متعینہ سعودی سفیر مصطفیٰ ابراہیم المبارک نے کہا ہے کہ انہیں اس امر پر شدید حیرت ہوئی ہے کہ جکارتہ کی وزارت خارجہ نے اس معاملے میں اُن کو طلب کر لیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ وزارت کے حکم کی تعمیل کریں گے۔