’سعودی عرب چودہ شیعہ نوجوانوں کی پھانسی روکے‘
12 اگست 2017جمعرات گیارہ اگست کو ان افراد کی جانب سے جاری کردہ ایک خط میں کہا گیا ہے کہ ان چودہ افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ’’ ایک بڑی ناانصافی کو درست‘‘ ثابت کرے گا۔ ان نوبل انعام یافتہ افراد نے سعودی حکام پر ملزمان سے جبراﹰ اعتراف جرم کرانے اور اُن پر جسمانی تشدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
چودہ ملزمان کو پھانسی کی سزا مظاہروں میں شرکت کرنے اور ملکی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے الزام میں سنائی گئی ہے۔ تمام چودہ افراد کا تعلق ملک کی شیعہ اقلیت سے ہے۔
ان نوجوانوں میں سے ایک مجتبیٰ السویخت بھی ہیں جنہیں سعودی ائیر پورٹ سے اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ مغربی مشی گن یونیورسٹی جانے کے لیے امریکا روانہ ہو رہے تھے۔ نوبل انعام پانے والے افراد کا کہنا ہے کہ السویخت اُس وقت اٹھارہ برس کا تھا، جب اسے فیس بک پر ایک گروپ چلانے اور مظاہروں کی تصاویر پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان شخصیات کا کہنا ہے کہ زبردستی اعتراف جرم کروانے کے دوران السویخت کا بازو ٹوٹ گیا تھا اور یہ بھی کہ عدالت میں ان ملزمان نے اعترافِ جرم سے انکار کیا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سزا پر نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران ملزمان پر مبینہ جسمانی تشدد کی تحقیقات نہیں کی گئیں، جو اگر درست ثابت ہوتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ اسلامی شریعہ قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
'دی امیریکن فیڈریشن آف ٹیچرز‘ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان چودہ نوجوان افراد کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کو رکوایا جائے۔
سعودی وزارت انصاف کے ترجمان منصور القفاری نے چار اگست کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب میں وہ تمام افراد جن کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں اُنہیں اپنی صفائی کے لیے مناسب مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں قدامت پرست مذہبی رہنما ماضی میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو ’کافر‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ مظاہرین پر سعودی عرب کے حریف ملک ’ایران کے اتحادی‘ ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔