سلمان حیدر کی گمشدگی، ’’معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے‘‘
9 جنوری 2017پاکستان پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے اس مسئلے پر ایوان زیریں میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے لیے درخواست جمع کرا دی ہے جب کہ ملک میں سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور کچھ سیاسی جماعتیں کل ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہروں کے پروگرام بنارہی ہیں۔ ان مظاہروں کا انتظام کرنے والے فاروق طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سلمان حیدر، وقاص گواریہ، عاصم سعید اور سول سوسائٹی کے دوسرے کارکنان کی جبری گمشدیوں کے خلاف کل پورے پاکستان میں مظاہرے کیے جائیں گے اور اس میں ان افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اِن کارکنان کے احباب اور گھر کے افراد بھی ان مظاہروں میں شرکت کریں گے۔‘‘
معروف سماجی کارکن فرزانہ باری نے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے سندھ اور پھر بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور اب سول سوسائٹی کے افراد کو بھی اٹھایا جارہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ سلمان حیدر اور دیگر افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہی ہے لیکن میرے خیال میں اس مسئلے پر ایک بھر پور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ جبری گمشدگیوں کا معاملہ پاکستان میں بہت سنگین ہوتا جارہا ہے۔‘‘
سلمان حیدر کے گھر کے افراد بھی اُن کی بازیابی کے لیے حکام سے رابطے کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک ان رابطوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ سلمان حیدر کے بھائی ذیشان حیدر نے اپنے بھائی کی بازیابی کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’پہلے حکومت نے کہا تھا کہ وہ کوشش کر رہی اور سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد بھی لے گئی تاکہ سلمان کو بازیاب کرایا جا سکے۔ آج پولیس حکام سے ملاقات ہے۔ دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’سلمان کوکوئی دھمکی نہیں ملی لیکن وہ ایک سماجی نقاد، شاعر اور ادیب ہیں۔ وہ تنقید کے نام سے ایک رسالہ بھی ایڈٹ کرتے تھے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وہ کھل کر بولتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ مذہبی ہم آہنگی پر کام بھی کرتے تھے۔ وہ کبھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔‘‘
سلمان کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’سلمان کو شدید قسم کی جلدی الرجی ہے۔ انہیں کئی طرح کی دوائیوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً سردی میں خشکی بڑھ جاتی ہے اور ان کی الرجی بھی شدید ہوجاتی ہے۔ اگر ان کو مختلف اقسام کے مرہم اور لوشن نہ دیے جائیں تو اس کے جسم سے خون بھی رسنے لگتا ہے۔‘‘
پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی اس گمشدگی کے حوالے سے بحث گرم ہے۔ لاہور میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک ٹویئٹر صارف شازیہ خان نے جبری گمشدگیوں پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سلمان حیدر اور سول سوسائٹی کے دیگر کارکنان کی جبری گمشدگی سیکولر اور ترقی پسندوں قووتوں کو خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس طرح کے کام پاکستانی ایجنسیاں کرتی ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کی حرکتوں سے لوگوں کو دبایا جا سکتا ہے لیکن لوگ خاموش نہیں ہوں گے۔ کل ملک بھر میں سلمان حیدر اور سول سوسائٹی کے دوسرے لاپتہ کارکنان کی جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرے ہوں گے۔ ہم اس مسئلے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
ایک ٹویئٹر صارف نے لوگوں سے ان مظاہروں میں شرکت کی اپیل کرتے ہوئے کہا، ’’جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت کریں اس سے پہلے کہ آپ بھی گمشدہ ہوجائیں۔‘‘ کئی ٹویئٹر صارفین نے سلمان حیدر کی نظم کے مصرعے لکھ کر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور کچھ نے سلمان کے لیے نئی نظمیں لکھ کر یکجہتی کا اظہار کیا۔