سلیم شہزاد کا قتل: عدالتی کمیشن کا نوٹیفیکیشن
16 جون 2011جمعرات کے روز وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک جج، جسٹس میاں ثاقب نثار پانچ رکنی کمیشن کی سربراہی کریں گے۔ کمیشن کے دیگر ارکان میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل انویسٹی گیشن پنجاب، ڈی آئی جی اسلام آباد اور پی ایف یو جے کے صدر شامل ہیں۔ اس سے قبل حکومت نے جسٹس آغا رفیق کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، جسے مسترد کرتے ہوئے صحافتی تنظیموں نے بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 24 گھنٹے کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم صحافیوں کے مطالبات مانتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جمعرات کو علی الصبح نئے کمیشن کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان کے بعد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’ہم حکومتی نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلا ن کرتے ہیں اور صدر پاکستان اور وزیراعظم کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے یہ نوٹیفیکیشن جاری کیا اور ہمارا مطالبہ پورا ہوا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں قتل و غارت گری ختم ہو۔‘‘
اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد قائم کیے جانے والے کمیشن کی طرح سلیم شہزاد کی ہلاکت کے سلسلے میں بنایا گیا عدالتی کمیشن بھی اپنے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی متنازعہ ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ اس کمیشن کی تشکیل اور اس کے سربراہ کے تقرر سے متعلق کوئی مشاورت نہیں کی۔ اسی دوران کمیشن کے سربراہ نامزد کیے گئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس سے مشاورت لازمی ہے۔ ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر وہ اس کمیشن کی سربراہی قبول نہیں کریں گے۔
پاکستانی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر نے بھی اس کمیشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس کمیشن کے قیام سے پہلے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کرنا چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا،’’یہ ایک جج کو شرمندہ کرنے والی بات ہے کہ آپ نوٹیفیکیشن جاری کر دیں اور اس سے پوچھیں بھی نہ۔ عام طور پر ایک ملازم کا نوٹیفیکیشن بھی اس سے پوچھے بغیر نہیں کیا جاتا۔ اس معاملے میں کیس لاء بھی موجود ہے کہ آپ جج کو پوچھے بغیر کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کر سکتے۔‘[
ادھر وفاقی وزیر اطلاعات نے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی کمیشن کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ اگر جسٹس ثاقب نثار نے کمیشن کی سربراہی کی حامی بھر لی تو پھر چیف جسٹس سے مشاورت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ سوال کہ چیف جسٹس کے کورٹ میں بال پھینک کر حکومت کوئی راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے، یہ ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی منظم سازش ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کل اس دھرنے کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کا ذریعہ بنانا چاہا، صبح اٹھے تو ان کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو گئے۔‘[
فردوس عاشق اعوان کے مطابق یہ کمیشن کام شروع کرنے کے بعد چھ ہفتے کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کے علاوہ مستقبل میں ایسے واقعات کے پیشگی سدباب سے متعلق سفارشات بھی مرتب کرے گا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں