سوات: فن و ثقافت کی رونقین بحال ہو رہی ہیں
1 فروری 2013سوات صوبہ خیبر پختونخوا کا وہ ضلع ہے جہاں ٹیلی ویژن، سی ڈی پلیئرز، وی سی آر اور ٹیپ ریکارڈرز کو جمع کرکے نذر آتش کرنا عسکریت پسندوں کا روز کا معمول تھا۔ اس کے بعد مختلف علاقوں میں ویڈیو سینٹرز کو دھماکہ خیز مواد سے اُڑانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران خیبر پختونخوا کے سینیئر فنکاروں کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ان حالات میں درجنوں فنکاروں نے صوبہ اور ملک چھوڑ دیا جبکہ جو اپنے موقف پر ڈٹ رہے، ان میں سے کئی کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔
مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے بعد فن کی دنیا سے وابستہ ان افراد نے اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ موسیقی اور رقص کے لیے سوات کا علاقہ بنٹر خاص شہرت رکھتا ہے۔ اسے فن سے محبت کرنے والے یہ لوگوں کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ بنڑ کے ایک موسیقار محبوب نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا ’’حالات اب کافی بہتر ہیں اور وہ مختلف پروگراموں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب سوات کے حالات خراب ہوئے تو دوسروں کی طرح انہوں نے بھی نقل مکانی کی تھی۔
سوات میں ابھی بھی یہی تاثر ہے کہ حالات پہلے کی طرح پُر امن نہیں ہیں۔ لوگوں کے خوف میں اس وقت اضافہ ہوا جب عسکریت پسندوں نے تعلیم کے لیے سرگرم ملالہ یوسفزئی کو گولی ماری۔ تاہم ان حالات اور اس انجانے خوف کے باوجود بھی بنڑ میں پلوشہ نامی ایک نوجوان گلوکارہ اپنے استاد کے سامنے گھنٹوں بیٹھ کر موسیقی کی لے اور سر سیکھتی رہیں۔ پلوشہ کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ جلد سے جلد گلوکاری سیکھ لیں اور پورے ملک میں اپنی آواز کا جادو جگائیں۔ پلوشہ کہتی ہیں کہ سوات کی فنکارہ شبانہ کی موت کا شاید سب سے زیادہ دکھ انہیں ہے کیونکہ وہ ہر قدم پر ان کی رہنمائی کرتی تھیں۔ ان کے بقول ’’شبانہ کے دکھ نے گلوکاری کے میرے شوق کوجنون میں تبدیل کر دیا ہے اور اب میری کوشش یہی ہے کہ جلد سے جلد یہ فن سیکھ اسے آگے بڑھاؤں۔
اگر چہ فن کی دنیا سے جڑے ان لوگوں کی مشکلات کم نہیں ہیں لیکن پلوشہ بھی تمام تر حالات کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کر چکی ہیں۔ کیا پلوشہ اور بنڑ میں گلوکاری اور رقص سیکھنے کی شوقین دیگر درجنوں لڑکیاں اپنی خواہش پوری کر سکیں گی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے علاقے کے ایک سینئر فنکارعمر یونس نے کہا کہ وہ اس حوالے سے پُر اُمید ہیں’’جنگ سے پہلے والا دور بہت اچھا تھا لیکن آج حالات قدرے بہتر ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد بتاتے ہیں کہ جب سوات پاکستان کا حصہ نہیں تھا تو یہ علاقہ بہت ہی پُرامن تھا۔ جب ہم نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تووہ دور بھی اچھا تھا لیکن درمیان میں جوحالات خراب ہوئے تو اس سے ہم بھی متاثر ہوئے لیکن اب حالات قدرے بہتر ہیں اور اب ہم جب چاہیں کسی بھی تقریب میں بلا خوف اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
سوات کی فنکارہ شبانہ کے قتل کے بعد گلوکاروں اور موسیقاروں اور فن کی دنیا سے وابستہ دیگر افراد کو بھی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں تھیں جس کی وجہ سے کئی معروف فنکاروں نے یورپ، امریکا اور خلیجی ممالک میں پناہ لی ہے۔ تاہم دوسری جانب فن کا میدان خالی دیکھ کر درجنوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے موسیقی میں طبعہ آزمائی شروع کی ہوئی ہے اور یہ نوجوان پاکستان، افغانستان اور خلیجی ممالک میں بھی نام کما رہے ہیں۔
رپورٹ : فرید اللہ خان
ادارت: عدنان اسحاق