آپ سارا دن سنتے ہوں گے کہ سوشل میڈیا نے اس نسل کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا تو بچے اور نوجوان اس قدر بگڑے ہوئے نہیں تھے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس موبائل کی وجہ سے شیطانی پروپیگنڈا ہر فرد تک پہنچ گیا ہے۔ کسی کو لگتا ہے کہ اس کی بدولت ہم مذہب، معاشرت اور اخلاقیات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
بزرگوں کو لگتا ہے کہ رشتوں کا احترام ختم ہو چکا ہے، بچیاں بے پردگی کی طرف راغب ہو رہی ہیں اور اتنا ہی نہیں ہر دوسری آئی ڈی پر لڑکے لڑکیاں ٹھمکے لگا رہے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے وہ کسی نا کسی طرح سے اس سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ساتھ رابطے میں ضرور ہے۔
نہ نہ کرتے بھی یوٹیوب، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ تو ہر موبائل پر موجود ہیں۔ اور ہر طرح کے مزاج کے لوگ اپنی پسند نا پسند کے حساب سے مواد دیکھتے ہیں۔ اب تو یہ پسند نا پسند آپ کے ساتھ والوں سے پہلے آپ کے ذاتی فون کو معلوم ہو جاتی ہے۔ ادھر آپ کے منہ سے کوئی لفظ نکلا نہیں ادھر کسی بھی اپلیکیشن پر جاتے ہی اس حساب سے ویب سائٹس اور پیجز سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
آن لائن بزنس کے ہزاروں آپشنز آپ کا راستہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ خود کوئی بزنس نہ کریں تب بھی دوسروں کے کاروبار میں بہ طور کسٹمر اپنا حصہ شامل کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسے نہیں تو دوسروں کے ڈیجیٹل مواد کو دیکھ کر، پسند کر کے اور شیئر کرنے سے بھی آپ ان کے ویوز اور واچ آورز کی تکمیل میں مدد کر کے ان کے لیے کمائی کا ذریعہ بن رہے ہوتے ہیں۔
اور مزے کی بات یہ کہ آپ میں سے اکثر لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ جسے وہ سب سے زیادہ برا کہتے ہیں اور برائی کی نظر سے بار بار دیکھتے ہیں اس ہی کی تشہیر میں معاونت بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہ ظاہر غیر اخلاقی حرکات پر مشتمل مواد جسے ہم اور آپ کبھی اچھا نہیں سمجھتے اس کے ویوز لاکھوں کروڑوں میں ہوتے ہیں۔ اور ایسا مواد جو اخلاقی اور علمی اعتبار سے اعلی ہوتا ہے اس کو دیکھنے والے چند لوگوں کے علاوہ کوئی اور اسے بار بار دیکھنا پسند نہیں کرتا ہے۔
اس طرح ہم اور آپ حسب دستور قول و فعل کے اسی تضاد کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو مجموعی طور پر ہمارا خاصا بن چکا ہے کہ سماجی قدروں کے حساب سے اچھی باتیں اور اچھے کاموں کو نہ سننا پسند کرتے ہیں نہ دیکھنا۔ جبکہ ان کاموں کو جنہیں ہم اپنی دانست میں گناہ اور برا خیال کرتے ہیں، انہیں دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو ان باکس میں بھیجتے بھی ہیں۔
اب اس طرح کے مواد سے اگر کسی کو راتوں رات شہرت اور پیسہ ملے گا تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ محنت بھی کرے، گمنام بھی رہے اور پیسے سے بھی محروم رہے۔ لہذا سوشل میڈیا پر عجیب و غریب حرکات کا سلسلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس میں قصور کس کا ہے یہ آپ خود سوچیں لیکن آپ تفریح اور ہنسی مذاق کے نام پر اگر بے سرے آدمی کو گلوکار کے طور پر بلائیں گے، ایک ناچتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کی ویڈیوز کو پسند کریں گے، کسی گالیاں دیتے ہوئے شخص کے کلپس کو وائرل کریں گے، کسی کے لیک ہوئے ٹوٹے کو ملینز میں شیئر کریں گے تو وہ ہر سکرین اور ہر ڈیوائس پر راج کرے گا۔
آپ کی نسلیں اس طرح کے شارٹ کٹس کو لا محالہ عزت اور شہرت کا ذریعہ سمجھیں گی۔ وہ یہ راستے اپنائیں گی اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا کہ یہ راستہ آپ خود انہیں دکھا رہے ہیں۔ یہ منافقت بھی آپ ہی انہیں سکھا رہے ہیں کہ جس شے کو رغبت سے دیکھنا اسی کو برا بھلا بھی کہنا۔
پیسے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہونا لیکن دوسروں کو ویسا کچھ بھی کرنے پر اعتراضات کا نشانہ بنانا اور سماجی قدروں کے پالن کا سبق دینا بھی وہ آپ سے وراثت میں لے رہے ہیں۔
اس موضوع کے کئی ہزار پہلو ہیں اور کئی ہزار مباحث لیکن المختصر!
آپ صرف اتنا کریں کہ جو کہتے ہیں ویسا کرنا بھی شروع کردیں یقین جانیے کہ اس نسل اور آنے والی نسل کے حالات خودبخود بدلنے لگیں گے اور سوشل میڈیا بھی آپ کی توقعات کے مطابق بہتری کی طرف گامزن ہو جائے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔