سُوچی روہنگیا پر مظالم کے خاتمے کو یقینی بنائیں، برطانیہ
11 فروری 2018برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے سوچی سے یہ بات میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں آج بروز اتوار ایک ملاقات کے دوران کہی۔ جانسن ایشیا کے چار روزہ دورے پر ہیں۔ بورس جانسن اور میانمار کی رہنما سوچی کے مابین یہ ملاقات جانسن کے بنگلہ دیش میں کوکس بازار کے ضلع میں واقع ایک مہاجر کیمپ کے دورے کے بعد ہوئی۔
گزشتہ برس اگست میں میانمار کی فوج کی جانب سے راکھین کی ریاست میں مسلم روہنگیا اکثریت کے خلاف کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد سے قریب سات لاکھ روہنگیا افراد ہجرت کر کے کوکس بازار پہنچے ہیں۔
ميانمار سے فرار ہونے والے افراد ملکی فوج پر جنسی زيادتی، تشدد اور قتل عام کے الزامات عائد کرتے ہيں جبکہ فوج ايسے الزامات مسترد کرتی ہے۔ اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق کے ادارے اور کئی غير سرکاری تنظيميں ميانمار ميں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کی طرف اشارہ کر چکے ہيں، جس کے سبب خاتون رہنما آنگ سان سوچی کافی تنقيد کی زد ميں رہی ہيں۔
میانمار کی وزارت داخلہ نے برطانوی وزیر خارجہ اور سوچی کی ملاقات کی تصویریں سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے راکھین ریاست میں ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں پر دوستانہ ماحول میں بات چیت کی۔ ملاقات میں مہاجرین کی راکھین واپسی پر اُن کے استقبال کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔
ان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات سے قبل برطانوی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جانسن سوچی پر دباؤ ڈالیں گے کہ راکھین میں روہنگیا اقلیت پر مظالم کے خاتمے اور مہاجرین کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن آج شام کسی وقت راکھین کا دورہ بھی کریں گے۔
میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے مابین ان لاکھوں مہاجرین کی واپسی کا ایک دوطرفہ معاہدہ گزشتہ ماہ نومبر میں طے پایا تھا۔ تاہم کئی امدادی تنظیموں، سفارت کاروں اور بین الاقوامی اداروں کو خدشہ ہے کہ میانمار میں ابھی تک حالات اتنے بہتر نہیں ہوئے کہ خوف کا شکار اِن پناہ گزینوں کی اکثریت میانمار واپسی پر آمادہ ہو جائے۔