سیلاب زدہ علاقوں میں ’کوئی خاص بہتری نہیں آئی‘
10 ستمبر 2010پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال میں تقریباﹰ ڈیڑھ مہینہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ امدادی کیمپوں میں ریلیف کا کام جاری تو ہے مگر اس کے کوئی نمایاں نتائج دکھائی نہیں دے رہے۔ ڈوئچے ویلے شعبہ جنوبی ایشیا کے تھوماس بیرتھلائن اس وقت پاکستان میں ہیں، جہاں وہ اگلے ایک ہفتے کے دوران مختلف سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے اپنے اس دورے کا آغاز شہر نوشہرہ سے کیا۔ وہاں کی صورتحال کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گو پانی اب کہیں بھی نظر نہیں آرہا، لیکن پانی نے جو تباہی پھلائی ہے، وہ ابھی تک دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں اور عمارتوں میں جن افرد نے پناہ لی رکھی ہے، ان کی پریشانیاں یکدم بڑھ گئی ہیں کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ یہ عمارتیں خالی کرائی جائیں تاکہ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔
متاثرہ افراد کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں کہ وہ اپنے تباہ شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کر سکیں اور نہ ہی انہیں وہ رقوم ابھی تک ملی ہیں، جن کا حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ تھوماس نے مزید بتایا کہ صرف یہی نہیں بلکہ امداد کی تقسیم پر بھی اکثر لڑائی ہوتی ہے اور امدادی اشیاء حاصل کرنے کی جنگ میں اکثر کمزرو افراد ہی شکست کھاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ متاثرین فوری طور پر اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتے ہیں لیکن بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پا رہے۔
نوشہرہ کے ایک امدادی کیمپ میں ایک شخص نے شکایت کی کہ امدادی سامان کی تقسیم کے وقت اکثر سرکاری اہلکار متاثرین سے ان کے شناختی کارڈ طلب کرتے ہیں۔ اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ پانی اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا ہے اور اب وہ سرکاری اہلکاروں کی شناختی کارڈ دکھانے کی شرط کس طرح پوری کر سکتے ہیں۔