سینکڑوں افراد کا ’معاون قاتل‘: سابق نازی گارڈ عدالت میں
6 نومبر 2018اڈولف ہٹلر کی زیر قیادت جرمنی میں نیشنلسٹ سوشلسٹوں کے دور میں سینکڑوں افراد کے قتل میں معاونت کے الزام میں اس ملزم کے خلاف مقدمے کی سماعت جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر میونسٹر کی ایک عدالت میں منگل چھ نومبر سے شروع ہو گئی ہے۔ ملزم نازی دور کے بدنام زمانہ ایس ایس دستوں کا رکن اور ایک اذیتی کیمپ کا ایسا محافظ تھا، جس نے اپنے مبینہ جرائم کا ارتکاب 1942ء اور 1944ء کے درمیانی عرصے میں کیا تھا۔
آؤشوِٹس، بُوخن والڈ، بَیرگن بَیلزن، ماژدانَیک اور بِرکیناؤ، یہ سب نازی دور کے وہ اذیتی کیمپ تھے، جن میں مجموعی طور پر کئی ملین یہودیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ آج یہ سب نام جرمن عوام اور بین الاقوامی برادری کی اجتماعی یادداشت کا ایک تکلیف دہ حصہ ہیں۔ جرمن، یورپی اور عالمی تاریخ میں انسانوں کی ان قتل گاہوں کو نسل کشی کے مراکز اور ہٹلر کی آمریت کی غیر انسانی سوچ کی مجسم شکل قرار دیا جاتا ہے۔
نازی دور کے جو اذیتی کیمپ اپنی تمام تر ہلاکت خیزی کے باوجود عالمی توجہ کے بڑے محور نہ بن سکے، انہی میں سے ایک کیمپ مقبوضہ پولینڈ میں آج کے بندرگاہی شہر گڈانسک کے نواح میں شٹُٹ ہوف کے مقام پر قائم تھا۔ وہاں نازیوں نے ستمبر 1939ء سے لے کر مئی 1945ء تک ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں بہت بڑی اکثریت یہودیوں کی تھی۔
اب جس سابقہ نازی فوجی کے خلاف میونسٹر کی ایک علاقائی عدالت میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی ہے، وہ قریب تین چوتھائی صدی پہلے اسی کیمپ کا ایک محافظ تھا۔ اس پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں افراد کے قتل میں معاونت کا مرتکب ہوا تھا۔ شٹُٹ ہوف کے اذیتی کیمپ میں مجموعی طور پر 65 ہزار انسانوں کو زیادہ تر زہریلی گیس کی چیمبروں میں بند کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔
موجودہ جرمنی میں بورکن کے علاقے کے رہنے والے اس ملزم کی شناخت اور گرفتاری شٹُٹ ہوف کے نازی اذیتی کیمپ کی تاریخی دستاویزات کی جانچ پڑتال اور تجزیے کے بعد ممکن ہو سکی تھی۔ میونسٹر کی متعلقہ عدالت کے ترجمان نے ڈوئچے ولے کو بتایا کہ یہ ملزم اس اذیتی کیمپ کا محافظ ہی نہیں تھا بلکہ اس کیمپ کے قیدیوں سے جب اس اذیتی مرکز کی حدود سے باہر بھی جبری مشقت لی جاتی تھی، تو بھی ان کی نگرانی یہی نازی فوجی کرتا تھا۔
اس مقدمے میں نجی کوائف کے تحفظ کے جرمن قانون کے تحت ملزم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ ملزم اب اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ وہ خود چل پھر بھی نہیں سکتا۔ اسی لیے آج اسے ایک وہیل چیئر پر عدالت میں لایا گیا۔
ایک اور اہم بات یہ کہ اس کے خلاف مقدمے کی سماعت میونسٹر کی نوجوان یا کم عمر ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے والی ایک عدالت کر رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جس عرصے میں ملزم اپنے مبینہ جرائم کا مرتکب ہوا تھا، تب اس کی عمر 21 برس سے کم تھی۔ اس لیے آج بھی اس کے خلاف کارروائی ویسی ہی ایک عدالت میں مکمل کی جائے گی، جیسی عدالت ارتکاب جرم کے فوری بعد ملزم کے خلاف کارروائی کی مجاز ہوتی۔
استغاثہ کی طرف سے ملزم کو خاص طور پر قتل عام کے جن واقعات میں براہ راست معاونت کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، ان واقعات کی تعداد دو ہے۔ ان میں سے ایک واقعے میں جون 1944 میں 100 سے زائد پولستانی قیدیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر ہلاک کیا گیا تھا۔ دوسرے واقعے میں بھی سائیکلون بی نامی زہریلی گیس کے ساتھ سابق سوویت یونین کے کم از کم 77 زخمی فوجیوں کو، جو نازیوں نے قیدی بنا لیے تھے، قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کا اجتماعی قتل بھی 1944 کے موسم گرما ہی میں کیا گیا تھا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق اس مقدمے کی کارروائی کم از کم بھی سماعت کے بارہ دنوں تک جاری رہے گی۔ ملزم نے اپنے خلاف فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد اعتراف کر لیا تھا کہ وہ شٹُٹ ہوف کے نازی اذیتی کیمپ میں گارڈ تو رہا ہے لیکن وہ وہاں قتل کے کسی بھی واقعے میں ملوث نہیں تھا۔
رالف بوزن / م م / ا ا