سینکڑوں شامی شہری ترکی جانے پر مجبور
23 جون 2011عینی شاہدین کے مطابق گزشتہ شب سینکڑوں کی تعداد میں شامی فوجی حلب کے رستے ترکی کی سرحد کی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ شامی صدر بشار الاسد کی طرف سے حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے کے لیے جاری فوجی آپریشن میں بدستور اضافہ، دمشق اور انقرہ کے مابین کشیدگی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔ ملکی صورتحال سے خوف زدہ اور شام کی فوج کے حملے سے بچنے کے لیے سینکڑوں شامی پناہ گزین آج جمعرات کو سرحد پار کر کہ ترکی میں داخل ہوگئے۔ سب سے زیادہ شورش زدہ علاقے شام کے شمالی شہر حلب سے مغرب کی طرف واقع ِادلب اور حلب سے 45 کلومیٹر مشرق کی طرف واقع شہر جسر الشغور اور اردگرد کے دیہات ہیں۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں حکومت مخالف مظاہرے سب سے زیادہ ہو رہے ہیں اور مظاہرین کے خلاف شامی فوج اپنی کارروائیوں میں تیزی لا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ترکی کی سرحد میں اب تک دس ہزار پناہ گزین داخل ہو چُکے ہیں۔ ترکی کا یہ علاقہ تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے ترکی کے ایک مقامی ڈاکٹر نے بتایا کہ یورپ سے مشرق وسطیٰ جانے والے مال بردار ٹرکوں کے اہم ترین روٹ کو اسد کی فوج اور خفیہ پولیس نے بلاک کر دیا ہے اور شمالی حلب کے علاقے سے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
دریں اثناء اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ سات جون سے اب تک ہر روز پانچ سو سے ڈیڑھ ہزار کے درمیان پناہ گزین شام سے فرار ہو کر ترکی کی سرحد میں داخل ہو رہے ہیں۔
ترکی نے شامی صدر بشار الاسد کو انتباہ کیا ہے کہ وہ 1980ء کے عشرہ میں اپنے والد کے دور میں مختلف شہروں میں ہونے والی عوامی خونریزی کے واقعات نہ دہرائیں۔ ساتھ ہی ترک حکومت کے سینئر اہلکاروں نے کہا ہے کہ بشار الاسد کے پاس ایک ہفتے سے بھی کم وقت ہے ملک میں اصلاحات سے متعلق اپنے دیرینہ وعدوں کو پورا کرنے کا، قبل اس کے کہ شام میں غیر ملکی مداخلت شروع ہو جائے۔
اُدھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے میڈیا کے نمائندوں کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بشار الاسد بہت تیزی سے اپنی ساکھ کھو رہے ہیں، کیونکہ ایک عرصے سے شام کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور اسد اپنے اصلاحات کے وعدوں کو پورا کرنے میں بُری طرح ناکام نظر آ رہے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امتیاز احمد