سی آئی اے ٹارچر تکنیک، رپورٹ منظر عام پر
26 اگست 2009گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سی آئی اے کے بعض تفتیش کاروں کی طرف سے القاعدہ کے کئی مبینہ شدت پسندوں کو دوران تفتیش جسمانی اذیتیں دینے کے الزامات یوں تو کوئی نئی بات نہیں لیکن اب متنازعہ طریقہ ء تفتیش پر بحث ایک نیا رُخ اختیار کر چکی ہے۔
سی آئی اے کے ایجنٹوں کی طرف سے تفتیش کے دوران جو متنازعہ طریقے آزمائے گئے، ان میں ’واٹر بورڈنگ‘، ’الیکٹرک ڈرلنگ‘، قیدیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں، ان کے منہ پر دھواں چھوڑنا اور انہیں سخت سردی والی کوٹھریوں میں قید کرنا شامل ہیں۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں کے نزدیک ’واٹر بورڈنگ‘ اور ’الیکٹرک ڈرلنگ‘ کے طریقے ٹارچر کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے معروف کارکن گوتم نولکھا کہتے ہیں: ’’بہت صاف بات ہے کہ واٹر بورڈنگ ٹارچر ہے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ ’کنوینشن اگینسٹ ٹارچر‘ کے تحت یہ صاف طور پر جسمانی اذیت ہے۔‘‘
گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد مشتبہ شدت پسندوں کے ساتھ دوران تفتیش زیادتیوں کے حوالے سے CIA پر مسلسل تنقید کی جاتی رہی تاہم سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے نائب ڈک چینی ’واٹر بورڈنگ‘ کا یہ کہہ کر دفاع کرتے رہے کہ اس کے ذریعے شدت پسندوں سے اہم معلومات حاصل کی گئیں۔ تاہم
حقوق انسانی کے کارکن گوتم نولکھا اس تاثر کو سراسر غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں گوتم نولکھا نے کہا:’’یہ جو کہا جاتا ہے کہ ٹارچر سے انہیں کچھ معلومات حاصل ہوئیں، یہ سراسر غلط ہے۔ سی آئی اے یہ کہتی ہے کہ ایسی معلومات سے وہ گیارہ ستمبر جیسے حملوں کو روکنے میں کامیاب ہوئی لیکن اسی ادارے کے بڑے افسروں نے اس حوالے سے متضاد بیانات دئے ہیں۔ تفتیش کے طریقے پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا۔ اِس حوالے سے ہمیشہ شک کیا جاتا رہا کہ جو معلومات حاصل کی گئیں، آیا وہ صحیح تھیں یا قیدیوں پر زور زبردستی کے ذریعے ان سے کہلوائی گئیں۔‘‘
سی آئی کے خلاف مسلسل شکایات کے بعد بالآخر محکمہء انصاف کی سفارشات پر مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف زیادتیوں کی تفتیش کے لئے امریکی اٹارنی جنرل کو ایک خصوصی استغاثہ مقرر کر نا پڑا۔ اَٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے وفاقی استغاثہ جان ڈرھم کو تفتیشی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا۔
ایک دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سی آئی اے کے ایجنٹوں نے تفتیش کے دوران مشتبہ شدت پسند خالد شیخ محمد کے بچّوں کو قتل کرنے کی بھی دھمکی دی جبکہ ایک اور مبینہ شدت پسند سے کہا گیا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی اس کی والدہ کی آبرو ریزی کی جائے گی۔
سی آئی کی رپورٹ میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ انٹیروگیشن کے دوران خالد شیخ محمد سے کہا گیا کہ امریکہ پر کوئی اور حملہ ہونے کی صورت میں ’’اس کے بچّوں کو مار دیا جائے گا۔‘‘
قیدیوں پر جسمانی تشّدد کے حوالے سے سی آئی اے نے مسلسل چار سال تک معلومات خفیہ رکھیں لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید دباوٴ کے باعث اب اسے اندرونی رپورٹ کو منظر عام پر لانا پڑا ہے۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں سی آئی اے کے طریقہء تفتیش پر کڑی تنقید کرتی چلی آرہی ہیں۔ امریکہ کے اندر سول سوسائٹی کے ارکان بھی سابق صدر جارج بش کے دور حکومت میں قیدیوں کے ساتھ آزمائے گئے طریقہء کار کی مذمت کرتے رہے ہیں۔
امریکہ میں شہری حقوق کی یونین ACLU یعنی ’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ کی وکیل امرت سنگھ کہتی ہیں:’’جوں جوں سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام سے متعلق مزید معلومات منظر عام پر آتی چلی جائیں گی، صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے لئے اس معاملے سے نظریں چرانا بہت مشکل ہوجائے گا۔‘‘
اُدھر امریکی صدر باراک اوباما نے زور دے کر کہا ہے کہ ماضی کے بجائے اب مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اوباما کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں نے اس وقت کے قانون کے مطابق پوچھ گچھ کے طریقے اختیار کئے لیکن اس کے لئے ان کے خلاف مقدمات قائم نہیں کئے جانے چاہئیں۔
دریں اثناء سی آئی اے کے سابق ایجنٹ رابرٹ بیئر نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد تفتیشی ادارے کے لئے انٹیروگیشن پروگرام ہرگز آسان نہیں تھا۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: امجد علی