شامی بحران : امریکا عراقی اور لبنانی فورسز سے تعاون میں اضافہ کرے گا
27 جون 2013خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنرل ڈیمپسی نے امریکی فوجی کمانڈروں سے خطاب میں کہا کہ عراقی اور لبنانی فوجیوں کی حربی صلاحیت میں اضافے کے لیے انہیں تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔ ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ شامی تنازعے کے تناظر میں عراق میں القاعدہ کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور سلامتی کی صورتحال کو خطرہ ہے، ایسے میں عراقی فورسز کا فعال اور مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔
جنرل ڈیمپسی کے مطابق اس سلسلے میں امریکی تربیت کاروں کی ٹیموں کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور دیگر آلات بھی ان دونوں ممالک کو فراہم کیے جائیں گے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنرل ڈیمپسی کی جانب سے کچھ ہفتے قبل تجاویز کا ایک مسودہ امریکی مرکزی کمانڈ کو ارسال کیا گیا۔ یہ بات امریکی فضائیہ سے وابستہ کرنل ایڈ تھامس، جو جنرل ڈیمپسی کے ترجمان بھی ہیں، نے بتائی۔
واضح رہے کہ سن 2011ء کے آخر میں عراق سے امریکی فوجی تربیت کاروں کو نکال لیا گیا تھا تاہم لبنان کے لیے امریکی فوجی تربیت اور تعاون کئی برسوں سے جاری ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں جنرل ڈیمپسی نے ایک بریفنگ کے دوران کہا، ’’فوجی سطح پر ہم شام کے ساتھ موجود اپنے پارٹنر ممالک سے تعاون کر رہے ہیں، تاکہ شامی تنازعے کے پھیلاؤ کی صورت میں مقامی فورسز صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’آپ جانتے ہیں کہ ہم نے پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریاں اور ایف سولہ لڑاکا طیارے اردن میں ہی رہنے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم عراقی، لبنانی اور ترک مسلح افواج کے ساتھ نیٹو کے ذریعے کام کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ شام کے ہمسایہ ممالک کو سلامتی سے متعلق متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں القاعدہ کی تنظیم نو اور کارروائیوں میں اضافے جیسے معاملات شامل ہیں۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکی لڑاکا فوج کے عراق یا لبنان بھیجنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اردن میں مشترکہ فوجی مشکوں کے بعد امریکا نے ایک درجن ایف سولہ لڑاکا طیارے اور ایک پیٹریاٹ بیٹری اردن ہی میں رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ خبر رساں ادارے AP کے مطابق اردن میں اس وقت تقریباﹰ ایک ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔
(ataba (AP