شامی جنگ: لاکھوں بچے متاثر لیکن حل کوئی نہيں
13 مارچ 2018شامی خانہ جنگی کو شروع ہوئے اب سات برس بيت چکے ہيں اور اگر اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے، تو اس جنگ سے سب سے زيادہ متاثر ہونے والے اس ملک کے بچے ہيں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ’بچوں کے خلاف‘ اس جنگ کو ختم کيا جائے۔ اس وقت تقريباً چھ ملين شامی بچے يا تو اپنے ہی ملک ميں بے گھر ہو چکے ہيں يا پھر ديگر ملکوں ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ تقريباً ڈھائی ملين تعليم سے محروم ہيں۔ تين ملين سے زائد بچوں کو بارودی سرنگوں سے خطرات کا سامنا ہے، ان علاقوں ميں بھی جہاں اب لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ بارودی سرنگوں سے ہلاک ہونے والوں کی چاليس فيصد تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔
اقوام متحدہ شام ميں سن 2014 سے سن 2017 کے درميان ڈھائی ہزار بچوں کی ہلاکت کی تصديق کر چکی ہے تاہم ادارہ يہ بھی کہتا ہے کہ ہلاکتوں کی حقيقی تعداد اس سے کہيں زيادہ ہو سکتی ہے۔
شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والے مبصر گروپ سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق شام ميں مسلح تنازعے کے آغاز سے اب تک بچوں کی مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 19,800 بنتی ہے۔ اس سلسلے ميں کرائے گئے ايک تازہ مطالعے کے نتائج ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ جنگ کے متاثرين ميں بچوں کی تعداد تيزی سے بڑھ رہی ہے۔ سن 2016 ميں ہلاک يا زخمی ہونے والوں ميں تیئس فيصد بچے تھے۔ 2011ء کے اختتام پر يہ تناسب 8.9 فيصد تھا۔
رواں سال کے پہلے دو ماہ ميں ايک ہزار سے زائد شامی بچے ہلاک يا زخمی ہو چکے ہيں۔ بچوں کے ليے اقوام متحدہ کی ذيلی تنظيم يونيسف کے ڈائريکٹر برائے مشرق وسطی و شمالی افريقہ گيئرٹ کاپيلارے کے بقول شامی جنگ در اصل بچوں کے خلاف جنگ ہے۔
بچوں کے ليے سرگرم غير سرکاری تنظيم سيو دا چلڈرن کی پير کے روز شائع ہونے والی ايک رپورٹ کے مطابق شام ميں تباہ کن بمباری کی مہم جاری ہے، جس ميں مکانات، بچوں کے اسکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنايا جا رہا ہے۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں