شامی شہر جسر الشغور میں فوجی آپریشن قریب تر
8 جون 2011گزشتہ روز شامی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ جسر الشغور میں مسلح گروہوں نے ایک سو بیس کے قریب پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ شامی وزیر داخلہ نے انتباہ کیا تھا کہ حکومت باغیوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے گی۔ شام سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق شامی افواج باغیوں کو کچلنے کے لیے ملک کے شمال مغرب میں واقع شہر جسر الشغور کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔
’شامی انقلاب دو ہزار گیارہ‘ نامی فیس بک گروپ نے یمنی فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی ایجنٹوں سے عام شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
فیس بک پر جسر الشغور کے شہریوں کی ایک دستخطی مہم میں کہا گیا ہے کہ جسر الشغور میں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی وجہ فوج کے اندرونی اختلافات ہیں۔ فیس بک کے اس گروپ نے حکومت کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ارکان کی ہلاکت ’مسلح گروپوں‘ کے ہاتھوں ہوئی۔
دوسری جانب مغربی ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے شامی حکومت کے ہاتھوں مظاہرین پر تشدد کے خلاف ایک مذمتی قرارداد منظور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روس اور چین اس قرارداد کی مخالفت کر رہے ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ایلاں ژوپے کے مطابق شام میں تشدد شدید ہوتا جا رہا ہے اور یہ ناقابل یقین بات ہے کہ اقوام متحدہ اس حوالے سے خاموش ہے۔
ادھر یہ متضاد اطلاعات بھی ہیں کہ پیرس میں شام کے سفیر لامیہ شکور نے یہ کہتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے کہ یہ عوام کے جائز مطالبات کا تقاضا ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے اپنے فیصلے سے شامی صدر بشار الاسد کو آگاہ کر دیا ہے۔ شامی سرکاری ٹی وی پر فرانس میں دمشق کے سفیر کے استعفے کی خبر کی تردید کی گئی ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک