شامی مہاجرين کے يورپ تک سفر کا آغاز لبنان سے
15 اکتوبر 2015ان دنوں لبنان کے شمالی بندرگاہی شہر طرابلس الشام سے روزانہ کئی سو افراد بحری جہازوں پر سوار ہو کر ترکی تک کا سفر کر رہے ہيں۔ در اصل يہ لوگ سياح نہيں بلکہ شامی شہری ہيں، جو طرابلس الشام سے ترکی کے ساحلی شہروں ميرسين يا تاش اوجو تک سفر کر کے سياسی پناہ کے ليے يورپ پہنچنے کے اپنے طويل سفر کا آغاز کرتے ہيں۔ ترکی پہنچنے کے بعد ہزارہا ديگر شامی شہريوں کے ہمراہ يہ لوگ بھی يورپ تک رسائی کے ليے اسمگلروں اور ايجنٹوں کو بھاری رقوم ادا کر کے اور اپنی جانيں خطرے ميں ڈال کر یہ سفر اختيار کرتے ہيں۔
دارالحکومت بيروت کے بعد طرابلس الشام ميں لبنان کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ پر اپنے سفر کے آغاز سے پہلے متعدد شامی باشندے اپنے اصل مقاصد ظاہر کرنے سے گزيز کرتے ہيں۔ تين بڑے بڑے سوٹ کيسز اپنے پيچھے کھينچتے ہوئے ابو يحيٰی بتاتا ہے کہ وہ دمشق کا رہنے والا ہے اور اپنی اہليہ اور دو بچوں کے ہمراہ رشتے داروں سے ملنے ترکی جا رہا ہے۔ قريب کھڑے شامی نوجوانوں کے ايک گروپ سے قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ طارق نامی ايک نوجوان نے طنزيہ انداز ميں کہا، ’’شام ميں صورتحال اتنی اچھی ہے کہ ہم سب سياحت کے ليے جا سکتے ہيں اور پھر اپنے وطن لوٹ بھی سکتے ہيں۔‘‘ بعد ازاں سنجيدگی سے بات کرتے ہوئے طارق نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ وہ اور اس کے ساتھی پناہ کے مقصد سے يورپ جا رہے ہيں۔ اس نے کہا کہ وہ يونان جائے گا، خواہ اس کے ليے اسے اپنی جان خطرے ميں ہی کيوں نہ ڈالنی پڑے۔ اس موقع پر طارق کے دوست بھی بول پڑے، ’’ہم کوشش ضرور کريں گے کيونکہ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہيں۔ ہمارے ملک ميں تو پہلے ہی موت ہمارے تعاقب ميں ہے۔‘‘
طرابلس الشام ميں پورٹ ڈائريکٹر احمد تمير نے بتايا کہ طرابلس سے ترک بندرگاہوں تک سفر کی يہ سروس شام ميں خانہ جنگی کے آغاز سے ايک برس قبل 2010ء ميں شروع کی گئی تھی۔ تمير کے بقول موسم گرما ميں ايک ہفتے کے دوران دو مرتبہ بحری جہاز ترکی جاتا تھا ليکن ان دنوں ہفتہ وار چار مرتبہ بحری جہاز ترک پورٹس جاتا ہے۔ اس نے بتايا، ’’پچھلے پورے سال ميں مسافروں کی تعداد 54,000 تھی جبکہ اس سال صرف اگست ہی کے ماہ ميں مسافروں کی تعداد 28,000 رہی۔ طرابلس کے ذريعے آمد و رفت کا سلسلہ شام اور ترکی کے درميان قصاب نامی بارڈر کراسنگ کی بندش کے بعد شروع ہوا۔
لبنان کے جنرل سکيورٹی نامی ادارے کے مطابق طرابلس سے سفر کرنے والے 90 فيصد مسافر شامی ہوتے ہيں۔ پورٹ ڈائريکٹر احمد تمير کے بقول ان کی اکثريت واپس نہيں آتی۔ ايسے ايک سفر پر ايک ہزار مسافروں نے طرابلس چھوڑا جبکہ صرف پچاس لبنانی مسافر ہی واپس لوٹے۔
طرابلس الشام سے ترکی دو مختلف راستوں سے جايا جا سکتا ہے۔ لبنانی پورٹ سے 13 گھنٹوں کا سفر طے کر کے Tasucu پہنچا جا سکتا ہے اور اس پر فی مسافر 150 يورو کا خرچہ آتا ہے۔ دوسرا روٹ طرابلس سے مرسين تک کا ہے، جس ميں سات گھنٹے لگتے ہيں اور مسافروں کو 236 يورو ادا کرنے پڑتے ہيں۔ ايک لبنانی مسافر نے بتايا، ’’سفر کے دوران وہ سب جرمنی ميں مستقبل کی باتيں کرتے ہيں۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ لبنان ميں قريب ايک ملين شامی مہاجرين قيام کيے ہوئے ہيں۔ ان کی اکثريت سفری دستاويزات کی حامل نہيں اور اسی ليے وہ يورپ پہنچنے کے ليے غير قانونی اور خطرناک طريقے اختيار کرتے ہيں۔ اکثر اوقات ايجنٹس اور اسمگلر ان مہاجرين کے ساتھ دھوکہ دہی بھی کرتے ہيں۔ حاليہ مہينوں ميں چند ايسے کيسز سامنے آئے ہيں جن ميں کشتياں ڈوب گئیں۔ تاہم ان خطرات کے باوجود بھی بہت سے لوگ ابھی بھی یورپ پہنچنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ آج بھی بس کسی نہ کسی طرح يورپ پہنچنے اور ايک نئی زندگی شروع کرنے کے خواہاں ہيں۔