شامی مہاجر جسے اس کے ’جرمن خواب‘ کی تعبیر مل گئی
21 اگست 2016بارش کی پھوار سے بچنے کے لیے چھتری کھولتے ہوئے ندال راشو نے چٹکلا چھوڑا، ’’میری چھتری شام کی طرح ہے، ٹوٹی ہوئی۔‘‘ اور ایک دبیز سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
ندال جرمنی پہنچا تو بون میں ایک بہت معمولی سی رہائش گاہ میں مقیم ہوا تھا۔ جرمن حکام نے مہاجرین کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے سر چھپانے کی کئی عارضی جگہیں بنائی تھیں۔ 30 سالہ راشو نے جرمنی پہنچ کر سارا زور جرمن زبان سیکھنے میں لگا دیا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ زبان آ گئی، تو نوکری حاصل کرنا کچھ دشوار نہیں ہو گا اور اس طرح وہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے گا۔ اب ندال راشو مکمل طور پر خود مختاری اور خود انحصاری کی زندگی جی رہا ہے۔ ’’میرے پاس اب سب کچھ ہے۔ نوکری ہے، اپارٹمنٹ ہے اور گرل فرینڈ بھی۔‘‘
خود انحصاری کا راستہ
جرمنی میں راشو ایک جرمن جوڑے کے ساتھ رہ رہا ہے۔ ویڈِگ فان ہیڈن ایک سابق ماہر قانون ہیں، جنہوں نے کسی دور میں جرمن کونسل برائے سائنس اور آرٹس میں بہ طور جنرل سیکرٹری کام بھی کیا ہے۔ ویڈِگ فان ہیڈن اور ان کے خان دان نے ندال راشو کو اپنے ہاں رکھ لیا، یعنی ایک ایسے مہمان کے طور پر جس سے کھلے دل اور کھلی بانہوں کے ساتھ ملا جاتا ہے۔
’’ویڈِگ ہمیشہ میرے لیے موجود رہے۔ میں بہت خوش قسمت ہوں۔ اگر وہ نہ ہوتے، تو میں اپنا لینگویج کورس کبھی ختم نہ کر سکتا اور اب تک کسی مہاجر کیمپ میں رہ رہا ہوتا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جرمنی میں ایک طرح سے یہ میرے والد ہیں۔‘‘
اس خان دان نے ندال راشو اور اس کے ساتھ جرمنی پہنچنے والے اس کے دو بھائیوں کو اپنے ہاں رکھ لیا تھا۔ یہ شامی کرد مہاجر گزشتہ برس جرمنی پہنچے تھے اور تب سے ان کا بسیرا بون شہر میں ہے۔
کرد، عربی، انگریزی اور اب جرمن زبان بھی جاننے والے ندال راشو نے جرمنی میں ورک پرمٹ یا ملازمت کا اجازت نامہ حاصل کیا اور پھر بون شہر ہی کی انتظامیہ کی جانب سے مشتہر کردہ ایک نوکری بھی حاصل کر لی۔ اب وہ جرمنی میں نئے آنے والے اور بہتر زندگی کی راہیں ڈھونڈنے والے نئے مہاجرین کو مشورے اور تجاویز دیتا ہے۔ ’’مہاجرین میں سے بہت سے شام سے تعلق رکھتے ہیں، جب وہ شہری انتظامیہ کے دفتر (جہاں ندال راشو کام کرتا ہے) آتے ہیں، تو مجھے دیکھ کر وہ میری طرف آ جاتے ہیں، کیوں کہ میں ان کی زبان جانتا ہوں۔‘‘
معمول سے استثنیٰ
ندال راشو اس وقت ایک ہزار یورو ماہانہ کما رہا ہے اور ساتھ ہی سوشل ورک (سماجی بہبود کی سرگرمیوں) کا ایک کورس بھی کر رہا ہے، جس کے بعد اس کی ماہانہ آمدن یقیناﹰ بڑھ جائے گی۔ مگر شاید یہ مہاجرین کے اعتبار سے غیرعمومی شخص ہے۔ رواں برس جون میں جرمن ادارہ برائے روزگار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس وقت جرمنی میں دو لاکھ ستانوے ہزار مہاجرین بے روزگار ہیں۔ ان میں سے 26 فیصد وہ ہیں، جنہوں نے ہائی اسکول تک کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ان میں سے صرف نو فیصد ایسے ہیں، جو کسی ہنر کی باقاعدہ تربیت کے حامل ہیں۔
ندال راشو کا تاہم کہنا ہے کہ اسے اب بھی سوشل ورک تربیت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ یہ کورس جرمن زبان میں ہیں اور کہیں کہیں اب بھی زبان کی مشکلات اس کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں۔ مگر وہ پرعزم ہے کہ اب تک اس نے مشکل وقت جتنی آسانی کے ساتھ ہار مانے بغیر گزار لیا ہے، باقی کا وقت ویسا مشکل تو کبھی نہیں ہو گا۔