1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: دمشق میں کرفیو، عبوری حکومت کو انتقال اقتدار کی تیاری

8 دسمبر 2024

شامی اپوزیشن کے مسلح اتحاد کے باغیوں نے دمشق پر قبضے اور بشار الاسد کے ملک سے فرار کے بعد دارالحکومت میں رات کا کرفیو لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ شام میں اقتدار اب ایک عبوری حکومت کو منتقل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ntLa
بشار الاسد کی تصویر والا ایک پھٹا ہوا پوسٹر
شام میں اسد خاندان کا نصف صدی پر محیط دور اقتدار بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیاتصویر: Delil Souleiman/AFP

کئی برسوں تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والے شام میں اب ملک سے فرار ہو چکے صدر بشار الاسد اور ان کی فورسز کے خلاف لڑنے والی مسلح اسلام پسند اپوزیشن حیات تحریر الشام کی قیادت نے اتوار آٹھ دسمبر کی سہ پہر اعلان کیا کہ دارالحکومت دمشق میں مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر شائع کردہ شامی اپوزیشن کی ''عسکری کارروائیوں کی نگران انتظامیہ‘‘ نے اپنے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ تاہم اتوار کی شام سے پیر کی صبح پانچ بجے تک جس شبینہ کرفیو کا اعلان کیا گیا، وہ بظاہر نافذ کر دیا گیا ہے مگر اس حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں کہ اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔

شامی باغیوں نے اتوار آٹھ دسمبر کی صبح دمشق میں داخل ہو کر اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا اور اس دوران انہیں اسد حکومت کی فورسز کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

ایس اس لیے ہوا تھا کہ دمشق میں تمام فوجی چیک پوسٹیں پہلے ہی سے خالی تھیں اور باغیوں کے شہر میں داخل ہونے سےکچھ ہی دیر پہلے 24 سال سے برسراقتدار صدر بشار الاسد وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔

شام کے اسلام پسند مسلح اپوزیشن اتحاد حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی
شام کے اسلام پسند مسلح اپوزیشن اتحاد حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانیتصویر: OMAR HAJ KADOUR/AFP/Getty Images

عبوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی تیاریاں

شامی باغیوں کے اپوزیشن اتحاد نے ملک میں اس وقت پائے جانے والے طاقت اور اختیارات کے خلا کے حوالے سے اتوار کی شام کہا کہ وہ اقتدار ایک عبوری حکومت کو منتقل کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

اپوزیشن اتحاد کی قیادت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''عظیم شامی انقلاب اب جدوجہد کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسد حکومت کو اقتدار سے باہر کر دینے کے کامیاب مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ اب اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ مل کر ایک ایسے نئے شام کی تعمیر کی جائے، جو اس کے لیے شامی عوام کی طرف سے دی گئی قربانیوں کے عین مطابق ہو۔‘‘

اس اعلان کے بارے میں مشرق وسطیٰ میں سلامتی امور کے ایک ماہر تجزیہ کار، راجر شیناہان نے کہا کہ شامی باغیوں کی قیادت کا یہ اعلان اس امر کا ثبوت ہے کہ اس اتحاد کے رہنما اپنی سوچ اور سیاسی رویوں میں کتنے سمجھ دار ہیں۔

باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد عام شہری خوشیاں مناتے ہوئے شہر میں مختلف مقامات پر جمع ہو گئے
باغیوں کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد عام شہری خوشیاں مناتے ہوئے شہر میں مختلف مقامات پر جمع ہو گئےتصویر: AFP

بشار الاسد مستعفی ہو کر شام سے گئے، روس

روس شام میں خانہ جنگی کے کئی برسوں کے دوران ہمیشہ ہی اسد انتظامیہ کا حامی اور فوجی اور سیاسی حوالے سے معاون اور مشیر رہا تھا۔ بشار الاسد کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد ماسکو میں روسی وزارت خارجہ کی طرف سے اتوار کی سہ پہر کہا گیا کہ بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر شام سے گئے۔

ماسکو میں وزارت خارجہ نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کیے بغیر کہ بشار الاسد اس وقت کہاں ہیں، ایک بیان میں کہا کہ معزول شامی صدر نے پہلے یہ حکم دیا تھا کہ ملک میں ''اقتدار پرامن طریقے سے منتقل کیا جائے، اور اس کے بعد وہ شام سے روانہ ہو گئے تھے۔‘‘

وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، ''بشار الاسد اور شامی عرب جمہوریہ کی سرزمین پر تنازعے کے کئی فریقوں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اسد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے صدارتی منصب سے مستعفی ہو کر ملک سے چلے جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ ہدایات بھی دی تھیں کہ اقتدار کی منتقلی پرامن طور پر ہونا چاہیے۔‘‘

بیان کے مطابق بشار الاسد کے مستعفی ہونے اور ملک سے روانگی کے لیے ہونے والی بات چیت میں روس شامل نہیں تھا۔

شامی اپوزیشن کا ایک جنگجو دمشق کے صدارتی محل کے اندر ایک دفتر میں بیٹھا ہوا
شامی اپوزیشن کا ایک جنگجو دمشق کے صدارتی محل کے اندر ایک دفتر میں بیٹھا ہواتصویر: Omar Sanadiki/picture alliance/AP

شام میں امریکی فوجی موجودگی جاری رہے گی، پینٹاگون

شام میں صرف ایک روز پہلے کے مقابلے میں اب قطعی طور پر بدل چکی سیاسی اور عسکری صورت حال کے تناظر میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکہ مشرقی شام میں اپنی فوجی موجودگی آئندہ بھی جاری رکھے گا تاکہ دہشت گرد تنظیم ''اسلامک اسٹیٹ‘‘  کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکا جا سکے۔

امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ وزیر دفاع برائے مشرق وسطیٰ ڈینیل شاپیرو نے کہا کہ کافی حد تک خدشہ ہے کہ ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ شام کی موجودہ غیر مستحکم سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو وہاں دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟

شاپیرو نے کہا، ''مشرقی شام میں امریکی فوجی موجودگی کا ''واحد مقصد‘‘ آئی ایس یا ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کی دیرپا شکست کو یقینی بنانا ہے اور اس فیصلے کا شامی تنازعے کے دیگر تمام پہلوؤں میں سے کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس امریکی اہلکار نے یہ بات خلیجی ریاست بحرین کے دارالحکومت میں مانامہ ڈائیلاگ کہلانے والی سکیورٹی کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہی۔

شامی اپوزیشن کے مسلح جنگو دمشق پر قبضے کے بعد خوشیاں مناتے ہوئے
شامی اپوزیشن کے مسلح جنگو دمشق پر قبضے کے بعد خوشیاں مناتے ہوئےتصویر: Omar Sanadiki/AP/dpa/picture alliance

شامی وزیر اعظم کا آزادانہ انتخابات کا مطالبہ

شامی وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے تازہ سیاسی صورت حال کے بارے میں نشریاتی ادارے العربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اتوار کی دوپہر کہا کہ شام میں اب آزادانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کرائے جانا چاہییں تاکہ ملکی عوام اپنی قیادت کا انتخاب کر سکیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ الجلالی نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ شامی باغیوں کے اپوزیشن اتحاد کے رہنما ابو ﺍحمد الجولانی کے ساتھ رابطوﺍں میں ہیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر موجودہ عبوری عرصے کو کامیابی سے اس کی تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔

شام میں لڑائی کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات ہوں گے، اقوام متحدہ کے سفیر

اسی دوران العربیہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک ایسی ویڈیو بھی پوسٹ کی، جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ شامی باغیوں کے مسلح جنگجو الجلالی کو ان کے دفتر سے اس لیے اپنی حفاظت میں ساتھ لے کر جا رہے تھے کہ ان کی اپوزیشن کی عسکری کارروائیوں کی کمان کے ساتھ ملاقات ہو سکے۔

صدر اسد کے ملک سے فرار کے بعد شامی اپوزیشن باغیوں کے ایک گروپ نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے ہر حملہ بھی کر دیا، حملے کے بعد نظر آنے والی توڑ پھوڑ کا ایک منظر
صدر اسد کے ملک سے فرار کے بعد شامی اپوزیشن باغیوں کے ایک گروپ نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے ہر حملہ بھی کر دیا، حملے کے بعد نظر آنے والی توڑ پھوڑ کا ایک منظرتصویر: OMAR HAJ KADOUR/AFP/Getty Images

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ

دمشق سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق شامی باغیوں کے دمشق پر قبضے کے بعد ان باغیوں کے ایک گروپ نے شہر میں ایرانی سفارت خانے پر دھاوا بھی بول دیا۔ نیوز ایجنسی اے پی کی تیار کردہ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس حملے کے بعد شہر میں ایرانی سفارت خانے کی عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور بہت سے کاغذات سفارت خانے کے دورازے کے قریب زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔

شام میں 'ایرانی حمایت یافتہ گروپوں' کو نشانہ بنایا گیا، امریکہ

شامی خانہ جنگی میں، جن بیرونی قوتوں نے سالہا سال تک اسد حکومت کی سیاسی اور عسکری مدد کی تھی، ان میں روس اور ایران کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ ملیشیا بھی شامل تھے۔

شام میں تو کئی ایران نواز ملیشیا گروپ ایسے تھے، جو اسد حکومت کی فورسز کے شانہ بشانہ حکومت مخالف باغیوں کے ساتھ طویل عرصے تک لڑتے رہے تھے۔

صدر اسد، ماضی میں لی گئی اس تصویر میں روسی صدر پوٹن کے ہمراہ، ملک سے فرار ہو گئے تاہم یہ تاحال واضح نہیں کہ وہ کہاں ہیں
صدر اسد، ماضی میں لی گئی اس تصویر میں روسی صدر پوٹن کے ہمراہ، ملک سے فرار ہو گئے تاہم یہ تاحال واضح نہیں کہ وہ کہاں ہیںتصویر: SANA/AFP

دمشق کے نواح میں اسرائیلی فضائی حملے، مانیٹرنگ گروپ

شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اتوار کے روزاسرائیل نے دمشق کے مضافات میں المزہ ملٹری ایئر پورٹ کے قریب شامی فوج کے ہتھیاروں کے ذخیروں کو نشانہ بنایا۔

شام کو جنگ میں نہ گھسیٹا جائے، اقوام متحدہ کا مطالبہ

لبنان میں بیروت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سیریئن آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے اے ایف ہی کو بتایا، ''اسرائیلی فضائی حملوں میں المزہ کے فوجی ہوائی اڈے کے قریب شامی فوج کی چوتھی ڈویژن کی پوزیشنوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان فضائی حملوں کے دوران اسرائیل نے، جن مقامات کو ہدف بنایا، ان میں ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہیں بھی شامل تھیں۔

م م / ا ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

شام کے باغی جنگجوؤ کی تنظیم HTS کون ہے؟