شام: دمشق میں کرفیو، عبوری حکومت کو انتقال اقتدار کی تیاری
8 دسمبر 2024کئی برسوں تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والے شام میں اب ملک سے فرار ہو چکے صدر بشار الاسد اور ان کی فورسز کے خلاف لڑنے والی مسلح اسلام پسند اپوزیشن حیات تحریر الشام کی قیادت نے اتوار آٹھ دسمبر کی سہ پہر اعلان کیا کہ دارالحکومت دمشق میں مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر شائع کردہ شامی اپوزیشن کی ''عسکری کارروائیوں کی نگران انتظامیہ‘‘ نے اپنے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ تاہم اتوار کی شام سے پیر کی صبح پانچ بجے تک جس شبینہ کرفیو کا اعلان کیا گیا، وہ بظاہر نافذ کر دیا گیا ہے مگر اس حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں کہ اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔
شامی باغیوں نے اتوار آٹھ دسمبر کی صبح دمشق میں داخل ہو کر اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا اور اس دوران انہیں اسد حکومت کی فورسز کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ایس اس لیے ہوا تھا کہ دمشق میں تمام فوجی چیک پوسٹیں پہلے ہی سے خالی تھیں اور باغیوں کے شہر میں داخل ہونے سےکچھ ہی دیر پہلے 24 سال سے برسراقتدار صدر بشار الاسد وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔
عبوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی تیاریاں
شامی باغیوں کے اپوزیشن اتحاد نے ملک میں اس وقت پائے جانے والے طاقت اور اختیارات کے خلا کے حوالے سے اتوار کی شام کہا کہ وہ اقتدار ایک عبوری حکومت کو منتقل کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کی قیادت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''عظیم شامی انقلاب اب جدوجہد کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسد حکومت کو اقتدار سے باہر کر دینے کے کامیاب مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ اب اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ مل کر ایک ایسے نئے شام کی تعمیر کی جائے، جو اس کے لیے شامی عوام کی طرف سے دی گئی قربانیوں کے عین مطابق ہو۔‘‘
اس اعلان کے بارے میں مشرق وسطیٰ میں سلامتی امور کے ایک ماہر تجزیہ کار، راجر شیناہان نے کہا کہ شامی باغیوں کی قیادت کا یہ اعلان اس امر کا ثبوت ہے کہ اس اتحاد کے رہنما اپنی سوچ اور سیاسی رویوں میں کتنے سمجھ دار ہیں۔
بشار الاسد مستعفی ہو کر شام سے گئے، روس
روس شام میں خانہ جنگی کے کئی برسوں کے دوران ہمیشہ ہی اسد انتظامیہ کا حامی اور فوجی اور سیاسی حوالے سے معاون اور مشیر رہا تھا۔ بشار الاسد کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد ماسکو میں روسی وزارت خارجہ کی طرف سے اتوار کی سہ پہر کہا گیا کہ بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر شام سے گئے۔
ماسکو میں وزارت خارجہ نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کیے بغیر کہ بشار الاسد اس وقت کہاں ہیں، ایک بیان میں کہا کہ معزول شامی صدر نے پہلے یہ حکم دیا تھا کہ ملک میں ''اقتدار پرامن طریقے سے منتقل کیا جائے، اور اس کے بعد وہ شام سے روانہ ہو گئے تھے۔‘‘
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، ''بشار الاسد اور شامی عرب جمہوریہ کی سرزمین پر تنازعے کے کئی فریقوں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اسد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے صدارتی منصب سے مستعفی ہو کر ملک سے چلے جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ ہدایات بھی دی تھیں کہ اقتدار کی منتقلی پرامن طور پر ہونا چاہیے۔‘‘
بیان کے مطابق بشار الاسد کے مستعفی ہونے اور ملک سے روانگی کے لیے ہونے والی بات چیت میں روس شامل نہیں تھا۔
شام میں امریکی فوجی موجودگی جاری رہے گی، پینٹاگون
شام میں صرف ایک روز پہلے کے مقابلے میں اب قطعی طور پر بدل چکی سیاسی اور عسکری صورت حال کے تناظر میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکہ مشرقی شام میں اپنی فوجی موجودگی آئندہ بھی جاری رکھے گا تاکہ دہشت گرد تنظیم ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکا جا سکے۔
امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ وزیر دفاع برائے مشرق وسطیٰ ڈینیل شاپیرو نے کہا کہ کافی حد تک خدشہ ہے کہ ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ شام کی موجودہ غیر مستحکم سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو وہاں دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟
شاپیرو نے کہا، ''مشرقی شام میں امریکی فوجی موجودگی کا ''واحد مقصد‘‘ آئی ایس یا ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کی دیرپا شکست کو یقینی بنانا ہے اور اس فیصلے کا شامی تنازعے کے دیگر تمام پہلوؤں میں سے کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس امریکی اہلکار نے یہ بات خلیجی ریاست بحرین کے دارالحکومت میں مانامہ ڈائیلاگ کہلانے والی سکیورٹی کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہی۔
شامی وزیر اعظم کا آزادانہ انتخابات کا مطالبہ
شامی وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے تازہ سیاسی صورت حال کے بارے میں نشریاتی ادارے العربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اتوار کی دوپہر کہا کہ شام میں اب آزادانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کرائے جانا چاہییں تاکہ ملکی عوام اپنی قیادت کا انتخاب کر سکیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ الجلالی نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ شامی باغیوں کے اپوزیشن اتحاد کے رہنما ابو ﺍحمد الجولانی کے ساتھ رابطوﺍں میں ہیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر موجودہ عبوری عرصے کو کامیابی سے اس کی تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
شام میں لڑائی کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات ہوں گے، اقوام متحدہ کے سفیر
اسی دوران العربیہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک ایسی ویڈیو بھی پوسٹ کی، جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ شامی باغیوں کے مسلح جنگجو الجلالی کو ان کے دفتر سے اس لیے اپنی حفاظت میں ساتھ لے کر جا رہے تھے کہ ان کی اپوزیشن کی عسکری کارروائیوں کی کمان کے ساتھ ملاقات ہو سکے۔
دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ
دمشق سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق شامی باغیوں کے دمشق پر قبضے کے بعد ان باغیوں کے ایک گروپ نے شہر میں ایرانی سفارت خانے پر دھاوا بھی بول دیا۔ نیوز ایجنسی اے پی کی تیار کردہ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس حملے کے بعد شہر میں ایرانی سفارت خانے کی عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور بہت سے کاغذات سفارت خانے کے دورازے کے قریب زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔
شام میں 'ایرانی حمایت یافتہ گروپوں' کو نشانہ بنایا گیا، امریکہ
شامی خانہ جنگی میں، جن بیرونی قوتوں نے سالہا سال تک اسد حکومت کی سیاسی اور عسکری مدد کی تھی، ان میں روس اور ایران کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ ملیشیا بھی شامل تھے۔
شام میں تو کئی ایران نواز ملیشیا گروپ ایسے تھے، جو اسد حکومت کی فورسز کے شانہ بشانہ حکومت مخالف باغیوں کے ساتھ طویل عرصے تک لڑتے رہے تھے۔
دمشق کے نواح میں اسرائیلی فضائی حملے، مانیٹرنگ گروپ
شامی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اتوار کے روزاسرائیل نے دمشق کے مضافات میں المزہ ملٹری ایئر پورٹ کے قریب شامی فوج کے ہتھیاروں کے ذخیروں کو نشانہ بنایا۔
شام کو جنگ میں نہ گھسیٹا جائے، اقوام متحدہ کا مطالبہ
لبنان میں بیروت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سیریئن آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے اے ایف ہی کو بتایا، ''اسرائیلی فضائی حملوں میں المزہ کے فوجی ہوائی اڈے کے قریب شامی فوج کی چوتھی ڈویژن کی پوزیشنوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان فضائی حملوں کے دوران اسرائیل نے، جن مقامات کو ہدف بنایا، ان میں ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہیں بھی شامل تھیں۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)