شام میں شورش کا مقصد اصلاحات نہیں سبوتاژ ہے، بشار الاسد
20 جون 2011دارالحکومت دمشق کی ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ وہ ملکی وزارت انصاف سے درخواست کریں گے کہ وہ موجودہ عام معافی کو بڑھانے پر غور کرے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں تباہی و بربادی کرنے والوں اور جائز مطالبات رکھنے والوں کے درمیان فرق کیا جانا ضروری ہے۔
بشار الاسد نے اپنے خطاب میں وعدہ کیا کہ ملک میں ایک نیا آئین اور اصلاحاتی پیکج جلد متعارف کرایا جائے گا۔ ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیے جانے والے اس خطاب میں انہوں نے ملک میں جاری شورش کو ایک سازش اور بیرونی طاقتوں کا ایجنڈا قرار دیا۔
بشار الاسد کا مزید کہنا تھا کہ مشکل دنوں کے بعد شام اب تبدیلی کے نقطہ آغاز پر کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کے خلاف سازشوں کے باوجود شام مضبوط بن کر ابھرے گا:’’آج ہم اپنے ملک کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ ایک ایسا لمحہ، جسے ہم اپنے پختہ عزم کی بدولت، ایک مشکل اور تکلیف دہ گزشتہ کل سے، جس میں معصوم لوگوں کا خون بہا، امیدوں سے بھرپور آنے والے کل میں بدلنا چاہتے ہیں۔‘‘
اپنے خطاب میں بشار الاسد نے مارچ کے وسط سے شروع ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے دوران ’شہید‘ ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں استحکام نہیں ہوگا، اس وقت تک ترقی نہیں ہوگی اور جب تک ملک میں افراتفری اور سبوتاژ کا عمل جاری رہے گا، اس وقت تک اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔
اِدھر یورپی یونین شامی صدر بشار الاسد حکومت کے خلاف پابندیوں میں اضافے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس حوالے سے یورپی یونین میں شامل ممالک کے وزرائے خارجہ کے لکسمبرگ میں ہونے والے اجلاس میں پیش کرنے کے لیے ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے پہلے ہی شامی حکومت سے وابستہ 23 افراد کے خلاف پابندیاں عائد ہیں، جن میں ان کے اثاثے منجمد کیے جانے کے علاوہ ان پر سفری پابندیاں بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں صدر بشارالاسد بھی شامل ہیں۔ یورپی یونین اب اس فہرست میں ایک درجن کے قریب مزید افراد اور کمپنیوں کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
دوسری طرف روس کے صدر دیمتری میدویدیف نے اقوام متحدہ میں شام کے خلاف کسی قرارداد کو ویٹو کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو حکومت اقوام متحدہ میں شام کے خلاف طاقت کے استعمال کی حمایت نہیں کرے گی۔ لندن سے شائع ہونے والے اخبار فنانشل ٹائمز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں میدویدیف کا کہنا تھا:’’میں لیبیا جیسی قرارداد کی حمایت کرنے کو تیار نہیں کیونکہ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک اچھی قرارداد کو محض ایک کاغذ کے ٹکڑے میں بدلا جا چکا ہے، جسے بے معنی ملٹری آپریشن کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی