شام میں مظاہرے، درجنوں افراد کی ہلاکت کی اطلاعات
26 مارچ 2011مختلف اطلاعات کے مطابق صرف جنوبی شہر درعا میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے باعث 23 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، تاہم آزاد ذرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی ہے۔ حکام کی جانب سے صحافیوں کی نقل وحرکت پر پابندیوں کے بعد شام سے معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
شام کے علاقے درعا میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر مارچ کیا اور حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ یہ مظاہرین ’’آزادی‘‘ کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے ایک رپورٹر کے مطابق مشتعل مظاہرین نے مرکزی چوک میں نصب، بشارالاسد کے مرحوم والد سابق صدر حافظ الاسد کے ایک مجسمے کو بھی گرا دیا۔ اس کے بعد مختلف عمارتوں پر موجود عام لباس میں ملبوس سکیورٹی اہلکاروں نے خودکار ہتھیاروں سے مظاہرین پر فائرنگ کی۔
روئٹرز کے اس رپورٹر کے مطابق اس احتجاجی مظاہرے میں تقریبا تین ہزار افراد شامل تھے جبکہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے چاروں طرف سے فائرنگ کے ساتھ ساتھ آنسو گیس کا بھی زبردست استعمال کیا۔ اس رپورٹر کے مطابق اس واقعے کے بعد متعدد زخمیوں کو ایمبولینسوں اور عام گاڑیوں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا، تاہم یہ اطلاعات سامنے نہیں آئیں کہ زخمیوں میں سے کتنے افراد ہلاک ہوئے۔
عینی شاہدین کے مطابق درعا کے مرکزی چوک پر مظاہرین شام کے وقت ایک مرتبہ پھر جمع ہوئے اور انہوں نے متعدد سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کر دیا۔
درعا کے رہائشی ابراہیم کے مطابق شام میں مظاہرے اب اس جگہ پر پہنچ چکے ہیں، جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہیں رہا۔
ابراہیم کے مطابق شہر کے مرکز سے سابق صدر حافظ الاسد، جو موجودہ صدر بشارالاسد کے والد تھے، کے مجسمے کے گرائے جانے کا نظارہ بلکل ویسا ہی تھا، جیسا بغداد میں سن 2003ء میں صدام حسین کے مجمسے کا گرایا جانا تھا۔
اطلاعات کے مطابق شام کے ایک اور جنوبی شہر الصنمین میں بھی مظاہروں میں شدت دیکھی گئی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق الصنمین میں بھی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا، جس کے نتیجے میں جمعے کے روز وہاں 20 افراد ہلاک ہوئے، تاہم ان ہلاکتوں کی بھی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد