شام کی صورتحال، ڈوئچے ویلے کا تجزیہ
14 جون 2011کئی ہفتوں سے بد امنی کے شکار اس ملک کے ہزاروں باشندے ترکی ہجرت کر چکے ہیں جبکہ ہزاروں سرحد عبور کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ شام کے شمال مغربی سرحدی علاقے سے کم از کم پانچ ہزار شہری ترکی میں داخل ہو چکے ہیں۔ شامی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ترکی کے سرحدی علاقے میں قائم عارضی پناہ گزین کیمپ میں جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ دمشق حکومت کا موقف ہے کہ اس شہر میں 120 سکیورٹی اہلکاروں کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد اسے فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ لیکن یہ حکومتی موقف ایک متنازعہ حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
دمشق حکام کے مطابق ان اہلکاروں کو مسلح بغاوت کے تحت قتل کیا گیا۔ حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ ان فوجی اہلکاروں کو عوام کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ان کے اپنے ہی ساتھیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن وہاں حقیقت میں کیا ہوا ؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس کی کئی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک یہ بھی ہے کہ خونریز ہنگاموں کے بعد سے شام میں بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ جسرالشغور میں اقلیتی علوی شیعہ مسلمان بھی رہتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کارروائی سنی حکومت کے خلاف کی گئی ہو۔
شام میں 10 فیصد کے قریب علوی شیعہ مسلمان بستے ہیں جبکہ سنی مسلمانوں کی تعداد تقریباﹰ 75 فیصد ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر شام کے علوی مسلمان ایک خودمختار علاقے کے مالک تھے اور سنی حکومت سے آزادی کی ان کی یہ کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔ اسد حکومت کے مطابق یہ مذہبی جنگ نہیں بلکہ ملک میں انتشار پیدا کرنے والے دہشت گرد ہیں، جن کو غیر ملکی مدد حاصل ہے۔ ان حکومتی دعوؤں کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا، جس سے یہ ثابت ہو کہ شام کے مظاہرین کو غیر ملکی مدد حاصل ہے۔
تاہم لبنان میں شام کی صورتحال پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ کیونکہ شام حکومت وہاں پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ وہ اپنا اتحادی کھو سکتے ہیں جبکہ فسطینی تنظیم حماس کے رہنما پہلے ہی اپنا دمشق میں ہیڈ کوارٹر چھوڑ کر کسی خلیجی ملک میں جا چکے ہیں۔ ایران اس وجہ سے پریشان ہے کہ شام اس کا خطے میں ایک اہم اتحادی ہے۔ مغربی ممالک بھی لیبیا کے برعکس شام کے معاملے میں نرمی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اسرائیل کے ساتھ سرحد رکھنے والا یہ ملک پورے خطے کے امن کے لیے انتہائی اہم ہے۔
رپورٹ: پیٹر فلپ/ امتیاز احمد
ادارت: عدنان اسحاق