1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: یہ جرمن خاندان اب کس حال میں ہے؟

28 دسمبر 2019

داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے سینکڑوں یورپی شہری شمالی شام کی جیلوں اور کیمپوں میں ہیں۔ ان میں جرمنی کی عائشہ اور ان کے چار بچے بھی شامل ہیں۔ عائشہ اب ہر حال میں جرمنی واپس آنا چاہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VQmM
BdTD - Syrien Frau mit Baby auf dem Arm
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Dana

عائشہ کی خاتون وکیل نورا کبھی بھی شام کے اُس کیمپ میں نہیں گئیں، جہاں عائشہ کو رکھا گیا ہے لیکن وہ اس جرمن خاندان کے مصائب سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ نورا ہر ہفتے ایک مرتبہ واٹس ایپ کے ذریعے عائشہ سے بات چیت کرتی ہیں۔

عائشہ اور ان کے بچے گزشتہ دو برسوں سے الروج کیمپ میں ہیں۔ یہ کیمپ کُرد حکام کے زیر کنٹرول ہے اور یہاں داعش کے زیر انتظام علاقوں میں رہنے والے ایسے دو سو شہریوں کو بھی رکھا گیا ہے، جن کا تعلق مختلف یورپی ممالک سے ہے۔

شام جانے سے پہلے عائشہ جرمنی کے ایک بینک میں ملازمت کرتی تھیں اور ایک عام شہری کی طرح زندگی گزار رہی تھیں۔ عائشہ کی طرح درجنوں یورپی لڑکیاں چند برس قبل شام چلی تو گئیں لیکن اب وہ واپس اپنے ملکوں میں آنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ دوسری جانب یورپی حکومتوں اور عوام کی رائے ایسے افراد کی واپسی کے خلاف ہے، جو داعش کے ساتھ مل کر کام کر چکے ہیں۔

عائشہ کی وکیل نورا نے اس وقت ایک جرمن عدالت سے رابطہ کر رکھا ہے تاکہ عائشہ اور ان کے بچوں کو واپس جرمنی لایا جا سکے۔ عائشہ کی وکیل کا موقف ہے کہ کسی دوسرے کے 'جرائم‘ کی سزا معصوم بچوں کو نہیں دی جا سکتی۔

وکیل دفاع کے مطابق عائشہ کا شوہر شام چلا گیا تھا اور اس نے ایک برس بعد عائشہ سے کہا کہ وہ اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ عائشہ اپنے بچوں کے ہمراہ ترکی گئی اور اس کا شوہر انہیں وہاں سے شام لے گیا۔ وکیل دفاع کے مطابق اس کے بعد عائشہ پر حلب میں مزید پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ شام پہنچنے کے ایک برس بعد عائشہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد اس کا شوہر بھی لاپتہ ہو گیا اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ مارا جا چکا ہے یا ابھی تک زندہ ہے۔

بعد ازاں عائشہ نے جرمنی میں مقیم اپنی بہن سے رابطہ کیا۔ اس کی بہن نے جرمن حکام سے مدد مانگی لیکن جرمن حکام کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کر سکتے کیوں کہ جرمنی اور داعش کے زیرکنٹرول علاقوں میں کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

پھر عائشہ نے داعش کے زیر کنٹرول علاقے سے نکلنے کی متعدد کوششیں کیں لیکن اس کے پاس کسی قسم کے سفری کاغذات موجود نہیں تھے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسری جانب عدالت میں پیش ہونے والے سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ اس کہانی میں زیادہ سچائی معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ کئی دیگر جہادی بھی بالکل اسی طرح کی کہانیاں بیان کر چکے ہیں۔ جرمن حکومت کی نمائندگی کرنے والی قانونی فرم کے وکلاء کا کہنا ہے، ''یہ بالکل واضح ہے کہ عائشہ شام اپنی مرضی سے گئیں کیوں کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش ایک بنیاد پرستانہ نظریے کے ساتھ کرنا چاہتی تھیں۔‘‘

یورپی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ جہادی واپس آ کر یورپ میں جہاد کے لیے ایک نیا نیٹ ورک قائم کر سکتے ہیں۔ لیکن یورپی کونسل کے خارجہ امور کے شعبے (ای سی ایف آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق، '' داعش کی مدد کے لیے جانے والے یورپی شہریوں کی واپسی ہی ان سے تفتیش کرنے، مقدمات چلانے، انہیں کنٹرول میں رکھنے اور انہیں ضرورت کے مطابق مصروف رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔‘‘

جرمن حکام کے پاس ایسا کوئی ایک بھی ثبوت موجود نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ شام جانے سے پہلے عائشہ بنیاد پرستانہ خیالات سے متاثر تھیں۔ نورا کا موقف ہے، ''اگر کوئی شخص جہادیوں کے زیرکنٹرول علاقے میں رہتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ بھی ایک جہادی ہے۔‘‘

نورا کہتی ہیں کہ جرمن حکام کو جلد از جلد عائشہ کے بچوں کو واپس جرمنی لانا چاہیے کیوں کہ وہ وہاں محفوظ نہیں ہیں۔ عائشہ کی حال ہی میں ایک تصویر بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہمراہ ایک تنگ خیمے کے اندر جھکی ہوئی تھی تاکہ وہ سبھی اس خیمے میں سما سکیں۔ نورا کا ان بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ''دیکھیں یہ بچے کسی طرح سے بھی کسی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ اگر ہم ان کی فلاح و بہبود کو سیاست کی نظر کر دیں گے تو ہمارا وہ پہلو کہاں رہ جائے گا، جو ہمیں دوسروں سے بہتر بناتا ہے؟‘‘

ا ا / م م