شاہ نورانی کے مزار پر دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی
13 نومبر 2016ہفتہ 12 نومبر کی شام میں ہونے والے اس خودکش دھماکے کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ صوبہ بلوچستان کی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار عبدالرسول نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امدادی ٹیمیں زخمیوں اور ہلاک شدگان کو ہسپتالوں میں منتقل کر رہی ہیں تاہم دشوار گزار پہاڑی راستوں کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ مزار صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 350 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں واقع بلال شاہ نورانی پر یہ دھماکا گزشتہ شام اُس وقت ہوا جب زائرین کی ایک تعداد وہاں دھمال ڈال رہے تھے اور لوگوں کا ایک ہجوم وہاں جمع تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
دہشت پسند گروپ داعش سے تعلق رکھنے والی نیوز ایجنسی ’اعماق‘ میں اس گروپ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس خودکش حملے کا نشانہ شیعہ تھے۔ تاہم بلال شاہ نورانی کے مزار پر سنی مسلمان اور شیعہ مسلمان دونوں ہی جاتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق علاقے میں موبائل فون نیٹ ورک نہ ہونے کے سبب مکمل صورتحال فوری طور پر واضح نہیں ہو سکی تاہم جس مقام پر یہ دھماکا ہوا وہاں قریب 500 افراد جمع تھے۔ پاکستانی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل محمد جنید نے صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا۔
بلوچستان میں یہ دھماکا ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب وہاں چین کے تعاون سے تعمیر کردہ گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر کا آج اتوار 13 نومبر کو باقاعدہ افتتاح ہو رہا ہے۔ افتتاحی تقریب میں پاکستانی وزیراعظم کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی قیادت کی بھی اس تقریب میں شرکت متوقع ہے۔
دھماکے کے بعد گزشتہ شب دیر گئے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی منتقل کیا گیا جو اس مقام سے قریب 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اے ایف پی کے مطابق کراچی کے صرف سول ہسپتال میں 26 لاشوں اور 50 کے قریب زخمیوں کو لایا گیا۔
دھماکے کے بعد پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ چار فوجی میڈیکل ٹیمیں اور آرمی کی 45 ایمبولینسوں کو دھماکے کے مقام کی جانب روانہ کر دیا گیا ہے۔