شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں کم از کم 13 ہلاک
19 جون 2010شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرعلی کے علاقے میںایک گھر پر دو میزائل داغے گئے، جہاں دہشت گردوں کا ٹھکانہ تھا۔ مقامی ذرائع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مرنے والوں میں اکثریت غیر ملکیوں کی ہے۔ یہ پتہ ابھی نہیں چل سکا کہ اُن کا تعلق کس کس ملک سے ہے۔
شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیارے نے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب امریکی صدر کے پاکستان اورافغانستان کیلئے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور ایک اعلٰی سطحی امریکی وفد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات کی تیاری کر رہےتھے۔
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ جب بھی امریکی حکام پاکستان کا دورہ کرتے ہیں، ڈرون حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے لیکن معروف تجزیہ نگار اور قبائلی امور کے ماہر بہروز خان کہتے ہیں:’’میں سمجھتا ہوں کہ امریکی جاسوس طیاروں کے حملوں کا امریکی حکام کے پاکستان کے دوروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں جب بھی اطلاعات ملتی ہیں یا پھر انہوں نے اپنی جو حکمتِ عملی بنائی ہوئی ہے، وہ اُس کے مطابق اقدامات اٹھاتے ہیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور عسکریت پسند خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھاکہ ان جاسوس طیاروں کےحملوں پر شروع میں حکومت نے احتجاج کیا، جو برائے نام تھا اور رفتہ رفتہ پاکستانی شہری یہ بات جان گئے کہ یہ حملے حکومت کی مرضی اور منشاکے مطابق ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’امریکہ کا افغانستان میں مضبوط نیٹ ورک ہے اور امریکی حکام کا موقف یہ ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں چھپے لوگ ہی افغانستان میں جا کر امریکی اور اتحادی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری طرف اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ میزائل حملے پاکستان اور بالخصوص قبائلی علاقوں اور پختونخوا کے عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ نہ تو سابق صدر بش کے دور میں اِن حملوں میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی صدر باراک اوباما کے دور میں یہ حملے کم ہوئے ہیں۔ یہ امریکی حکومت کی پالیسی ہے، جو گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔‘‘
اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کے دوران شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 70 سے زیادہ میزائل حملے کئے گئے۔ ان حملوں میں جہاں القاعدہ اور طالبان کے اہم لوگ مارے گئے، وہیں عام شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد اِن کی نذر ہو گئی۔ پاکستان میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرونز کی کارروائیوں ہی کی وجہ سے وہاں موجود عسکریت پسند بعد میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کونشانہ بناتے ہیں۔
امریکی جاسوس طیاروں سے ہٹ کر پاکستان ایئر فورس کے طیارے بھی وقتاً فوقتاً دُور دراز کے پہاڑی علاقوں میں چھپے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسی ایک تازہ کارروائی اورکزئی اور خیبر ایجنسی کے سرحدی علاقوں میں کی گئی۔ ڈبوری اور ملک دین خیل نامی علاقوں میں کی گئی ان کاروائیوں میں 16 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے جبکہ اُن کے بہت سے ٹھکانے بھی تباہ کئے گئے۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: امجد علی