شمالی کوریا : براہ راست بات چیت کی امریکی پیشکش
12 ستمبر 2009امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے ایک بیان کے مطابق واشنگٹن حکومت شمالی کوریا سے براہ راست مذاکرات شروع کرنے پر راضی ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اس پیشکش سے پیانگ یانگ حکومت کو چھ ملکی مذاکرات کی جانب واپس بلایا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکی حکام کی طرف سے براہ راست بات چیت کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ امریکہ کا مطالبہ تھا کہ پہلے شمالی کوریا تعطل کے شکار چھ ملکی جوہری مذاکرات شروع کرے اس کے بعد ہی کسی قسم کی بات چیت کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی وزرات خارجہ ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے جس میں کہا جا رہا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کر رہا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار پی جے کرولی نے کہا ہم شمالی کوریا سے دو طرفہ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ یہ بات چیت کب ہو گی، کہاں ہوگی اس کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔
شمالی کوریا نے 2005ء اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہونے پر راضی ہو گیا تھا۔ لیکن امداد کے معاملے پر دونوں کوریاؤں کے مابین پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی۔ گزشتہ برس کے اختتام پر شمالی کوریا کے ساتھ ہونے والے چھ ملکی مذاکرات بھی ختم ہو گئے تھے۔ جس کے بعد سے امریکی انتظامیہ معطل شدہ ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے راستے تلاش کر رہی ہے۔
اس سے قبل شمالی کوریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ یورینیئم کی افزودگی کے حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس پیش رفت سے پیانگ یانگ ایٹمی ہتھیار بنانے کے اور بھی نزدیک پہنچ جائے گا۔ شمالی کوریا پہلے ہی پلوٹونیئم کے دوجوہری تجربہ کر چکا ہے۔ ان میں سے ایک تجربہ رواں برس مئی میں کیا گیا تھا جس کے بعد عالمی برادری نے پیانگ یانگ پر نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ شمالی کوریا کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے جوہری منصوبے میں تازہ پیش رفت نئی پابندیوں کا ردِ عمل ہے۔
امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کو اس کے جوہری پروگرام سے دستبردار ہونے پر راضی کرنے کے حوالے سے چھ ملکی مذاکرات سب سے کارآمد طریقہ ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ چین ان مذاکرات کی میزبانی میں پیش پیش ہے ، اور شمالی کوریا چین کا حلیف ملک تصور کیا جاتا ہے۔