شمال مغربی پاکستان میں سیلاب، کم از کم سولہ افراد ہلاک
25 اگست 2011شمال مغربی پاکستان میں کوہستان کے دور افتادہ پہاڑی علاقے میں کندیاں کی وادی کو اس سیلاب نے آج جمعرات کو علی الصبح اچانک اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سیلاب کی وجہ مون سون کی وہ مسلسل بارشیں بنیں، جو پاکستان میں یوں تو پچھلے کئی ہفتوں سے وقفے وقفے سے جاری ہیں مگر جن میں گزشتہ رات، خاص طور پر ملک کے شمال مغربی علاقوں میں بہت تیزی آ گئی تھی۔
مقامی امدادی کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف خبر ایجنسیوں نے اسلام آباد سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس سیلاب کے نتیجے میں کندیاں میں خاص طور پر پہاڑوں کے عین وسط میں گبریال کا علاقہ زیادہ متاثر ہوا۔ وہاں درجنوں مکانات سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور کارنگ نامی گاؤں کے سینکڑوں کی تعداد میں رہائشی تو وہاں اس طرح پانی میں گھرے ہوئے ہیں کہ ان کا گاؤں دیکھنے میں پانی میں ایک جزیرہ نظر آتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں قدرتی آفات اور ان کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم صوبائی محکمے کی خاتون ترجمان نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ مقامی انتظامیہ نے سولہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ تاہم مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ابھی تک بظاہر کئی لاشیں پانی میں ہیں، جنہیں نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مقامی پولیس اہلکار شمس الرحمان کے مطابق ابھی تک کئی افراد لاپتہ بھی ہیں۔ شمس الرحمان نے بتایا کہ امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقے کے کئی حصوں تک پہنچنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ چند سیلاب زدہ مقامات پر تو صرف بہت دشوار گزار پہاڑی راستوں کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔
چند پاکستانی نشریاتی اداروں نے کوہستان میں ضلعی پولیس کے سربراہ محمد الیاس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ سیلاب زدہ علاقے سے سولہ افراد کی لاشیں مل چکی ہیں، مرنے والوں کی مجموعی تعداد بیس سے زائد ہے اور متاثرہ علاقوں تک پہنچنے کے لیے پشاور میں صوبائی حکومت سے امدادی ہیلی کاپٹر مہیا کرنے کی درخواست بھی فوری طور پر کر دی گئی تھی۔
پاکستان میں مون سون کی بارشیں عام طور پر جولائی میں شروع ہوتی ہیں، جو اگست میں بھی جاری رہتی ہیں۔ نئے سیلاب سے متاثرہ کوہستان کا علاقہ پچھلے سال پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔
سن 2010 میں آنے والے پاکستان کی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پورے ملک کا قریب بیس فیصد رقبہ زیر آب آ گیا تھا، دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور قریب 18 ملین شہری اپنے گھر بار سے محروم ہو گئے تھے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد