شمسی توانائی سے چلنے والی سب سے بڑی کشتی
1 مارچ 2010یہ کشتی جرمن شہر کِیل کے کنیرم شپ یارڈ میں تیار کی جارہی ہے، جس کے لئے مالی وسائل ایک جرمن سرمایہ کار امو شٹروئہر (Immo Stroeher) کی طرف سے مہیا کئے جا رہے ہیں۔ تین عرشوں کی حامل اس کشتی کی لمبائی 30 میٹر جبکہ چوڑائی 15 میٹر ہوگی۔ اس کا کل وزن 58 ٹن ہوگا۔ مستقبل کی اس کشتی کی شکل سٹار ٹریک فلموں میں دکھائی جانے والی گاڑیوں کی طرح کی ہے۔ اس کے مرکزی ہموار عرشے پر شمسی توانائی کو برقی توانائی میں بدلنے والے فوٹو وولٹائک سولر سیلوں کے پینل ایک خاص ترتیب میں نصب ہوں گے۔
کنیرم شپ یارڈ کے مالک شٹیفان موئلر کے مطابق اس کشتی کی تیاری پر لاگت کا تخمینہ دس ملین یورو لگایا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کشتی اگلے برس جنوری میں پانی میں اتاری جائے گی، جس کے فوری بعد یہ مختلف یورپی شہروں کا سفر کرے گی۔ موئلر نے مزید بتایا کہ اس کشتی کے ذریعے دنیا کے گرد چکر لگانے کی مہم کا آغاز اپریل 2011ء میں ہوگا۔ منصوبے کے مطابق بحر اوقیانوس عبور کرنے کے بعد یہ کشتی پاناما کینال سے ہوتی ہوئی بحر الکاہل اور پھر بحیرہ ہند کے پانیوں میں سفر کرے گی۔
دنیا کے گرد چکر لگاتے ہوئے یہ کشتی پیرس، ہانگ کانگ اور نیویارک جیسے بڑے شہروں میں جائے گی اور وہاں کے لوگوں کو اس کشتی میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے ترجمان ڈینی فیگو (Dany Faigaux) کے مطابق اس کا مقصد دنیا بھر میں موجود لوگوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ توانائی کا حصول قابل تجدید طریقوں سے بھی ممکن ہے۔
کِیل کے اس شپ یارڈ میں پلانیٹ سولر کی تیاری میں حصہ لینے والے 30 ماہرین کاربن فائبر کے ذریعے اس کشتی کے بیرونی حصوں کی تعمیر مکمل کر چکے ہیں، جبکہ اِسی سال دسمبر میں اس کشتی پر دو ایسے حصے بھی جوڑ دیے جائیں گے جن پر بیٹریاں نصب ہوں گی۔ یہ بیٹریاں 1.3 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں گی۔
اس کشتی کا سب سے اہم حصہ ایک اور شپ یارڈ میں تیار کیا جا رہا ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی کمپنی سن پاور کے تیار کردہ سولر سیل 508 مربع میٹر پر مشتمل اسی اہم حصے میں نصب کئے جائیں گے۔ کشتی کے اس مرکزی اور اہم حصے پر ان سولر پینلز کے علاوہ صرف کاک پٹ یعنی اس کشتی کو چلانے کے لئے آپریشن روم موجود ہوگا۔
شپ یارڈ کے سربراہ شٹیفان موئلر کے مطابق اس کشتی پر نصب کئے جانے والے سولر سیل روزانہ ایک ہزار واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ ضرورت سے زیادہ بجلی کو بیٹریوں میں محفوظ کر لیا جائے گا، جس کے باعث تین دن تک سورج نہ نکلنے کے باوجود بھی یہ کشتی 10 ناٹس یعنی قریب 18 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سےاپنا سفر جاری رکھ سکے گی۔
موئلر کے مطابق اس کشتی کی تیاری سے قبل اس کے تمام حصوں کا کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے بھرپور جائزہ لیا گیا۔ اگلے برس یعنی 2011ء میں دنیا کے گرد چکر مکمل کر لینے کے بعد اس کے مالک امو شٹروئہر کے ذاتی استعمال کے لئے اس میں تبدیلیاں لائی جائیں گی اور اسے ایک لگژری بوٹ میں بدل دیا جائے گا۔ تاہم ان کا ارادہ ہے کہ ایسے افراد کو وہ اسے کرائے پر بھی مہیا کریں گے جو سورج کی توانائی سے چلنے والی اس کشتی میں سفر کا تجربہ حاصل کرنا چاہتے ہوں گے۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : مقبول ملک