شہباز تاثیر کی رہائی کیسے ہوئی، تحقیقات ہوں گی
10 مارچ 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی خصوصی دستوں نے 33 سالہ شہباز تاثیر کو اسلامی عسکریت پسندوں سے بازیاب کرایا تھا۔ تاثیر کو پانچ برس قبل لاہور سے اغوا کیا گیا تھا۔ شہباز تاثیر منگل آٹھ مارچ کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی شہر کچلاک کے ایک ہوٹل سے ملے تھے۔ تاہم ان کی بازیابی کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ یہ رہائی دراصل قریب 10 ملین امریکی ڈالرز کے بدلے عمل میں آئی ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ رقم ایک ارب بنتی ہے۔
آج جمعرات 10 مارچ کو پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس معاملے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’حقائق مختلف ہیں‘، تاہم انہوں نے اس کی مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
شہباز تاثیر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے ہیں۔ سلمان تاثیر کو ان کے ایک گارڈ ممتاز قادری نے توہین رسالت کا الزام عائد کرتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ ممتاز قادری کو انتیس فروری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق نثار علی خان کا یہ اعلان پاکستان کے مختلف ٹیلی وژن چینلز پر کچلاک کے اُس ریسٹورنٹ کے مالک کا انٹرویو چلائے جانے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں شہباز تاثیر کی بازیابی والے دن کے بارے میں تفصیلات شامل ہیں۔
ریسٹورینٹ کے مالک محمد سلیم کے مطابق میلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص ان کے ریسٹورنٹ میں آیا جس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ اُس شخص نے وہاں کھانا کھایا اور پھر فون مانگ کر ایک کال کی۔ سلیم کے مطابق ایک گھنٹے بعد پاکستانی ملٹری کا ایک قافلہ آیا اور اس شخص کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے ایک گاڑی میں بٹھا کر وہاں سے لے جایا گیا۔ سلیم کے مطابق اُس نے ٹیلی وژن پر دکھائی جانے والی تصاویر کے بعد پہچانا کہ وہ شخص دراصل شہباز تاثیر تھا۔
ریسٹورنٹ مالک کے اس بیان کے بعد یہ اطلاعات عام ہوئیں کہ شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے تاوان ادا کیا گیا ہے، حالانکہ یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ کس عسکریت پسند گروپ کے قبضے میں ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق تاوان کی ادائیگی ہوئی ہے تاہم باقاعدہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔