شہباز شریف کا جو بائیڈن کو جوابی خط کیا ظاہر کرتا ہے؟
1 اپریل 2024وزیراعظم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور یہ کہ وہ عالمی امن و سلامتی اور خطے کی ترقی کے لیے مشترکہ طور پہ کام کرنے کا خواہش مند ہے۔ تاہم یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہیں اور یہ کہ مشترکہ کام کے لیے مشترکہ مفادات اور مقاصد حقیقی معنوں میں موجود ہیں؟
واضح رہے کہ جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا باضابطہ خط ہے، جو جو بائیڈن نے کچھ دنوں پہلے پاکستانی وزیراعظم کو لکھا تھا. اپنے خط میں بائیڈن نے لکھا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار تعلقات دونوں ملکوں کی عوام اور دنیا کی سلامتی کے لیے اہم ہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں تعلیم، صحت، معیشت اور ماحولیات سے متعلق امور پر دو طرفہ تعاون کا بھی تذکرہ کیا تھا۔
پاکستان اور امریکہ کے مابین مشترکہ مقاصد کی بنیاد کیا ہے؟
دفاعی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کے خاتمے اور امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس بات کا کم امکان ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے کوئی مشترکہ مقاصد وجود رکھتےہیں۔
سابق سکریٹری دفاع جنرل نعیم خالد لودھی سوال کرتے ہیں کہ کس طرح امریکہ اور پاکستان کام کرنے کے لیے کوئی مشترکہ گراؤنڈ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکہ خطے میں بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، جو پاکستان کے خلاف ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین پر اپنا انحصار کم کرے، جو پاکستان نہیں کر سکتا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان ایران سے گیس نہ لے، جو پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔ تو دونوں ممالک کے مفادات یکسر مختلف ہیں۔‘‘
'امریکہ مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے‘
جنرل خالد نعیم لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی مجبوریاں اسلام آباد کو امریکہ سے قریب تر ہونے پر مجبور کرتی ہیں۔ '' اسٹریٹیجک معاملات پہ دونوں کے مقاصد یکساں نہیں ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے امداد چاہیے، جہاں امریکہ کا بہت اہم کردار ہے۔ پاکستان کی افرادی قوت خلیج میں ہے، وہاں بھی امریکہ کا بہت اثر و رسوخ ہے۔‘‘
اس دفاعی مبصر کے خیال میں امریکہ اس مجبوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ ''اس کی تازہ مثال واشنگٹن کا پاک ایران پائپ لائن پر موقف ہے، جو پاکستان کے خلاف ہے۔‘‘
امریکہ پھر پاکستان کواسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کرے گا
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام آباد کئی مغربی دفاعی معاہدوں کا حصہ بنا۔ سرد جنگ میں مغرب اور امریکہ کا ساتھ دیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی مغرب کا اتحادی رہا، جس کی وجہ سے اس کو غیر نیٹو اتحادی کا درجہ بھی دیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ امریکہ اس خطے میں کوئی گڑبڑ کرنے والا ہے، جس کے لیے وہ پاکستان کا تعاون چاہتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغان طالبان روس کے قریب ہیں، جو امریکہ کو پسند نہیں۔ ایران بھی چین کا قریبی اتحادی ہے جو امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں۔ واشنگٹن ممکنہ طور ان دونوں ممالک کے خلاف کچھ کرنا چاہتا ہے۔‘‘
طلعت اے وزارت کے مطابق اس مقصد کے لیے امریکہ پاکستان کو ایک بار پھر جنگی میدان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ''میرے خیال میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان قطعی طور پر کوئی مشترکہ گراؤنڈ نہیں ہے۔ شہباز شریف امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر خطے میں کوئی مہم جوئی ہوتی ہے، تو اسلام آباد واشنگٹن کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔‘‘
دوسری طرف تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد کے ابتدائی برسوں میں امریکہ نے پاکستان کی بہت مدد کی، جس میں مزید وسعت آئی۔ اس نے نہ صرف ہتھیار فراہم کیے بلکہ پاکستانی فوج کی تربیت کا بھی انتظام کیا۔ سرد جنگ اور دہشت گردی کی جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کی کھل کر مالی مدد کی۔
اس تناظر میں کئی مبصرین کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ نکات اب بھی موجود ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان یوکرین اور روس کی جنگ میں غیر جانبدار رہا ہے۔ روس کی بڑھتی ہوئی مبینہ تو سیع پسندی امریکہ کے لیے تشویش ناک ہے۔ جو دونوں ملکوں کے لیے ایک مشترکہ نقطہ ہو سکتا ہے۔‘‘
طلت مسعود کے مطابق امریکہ اب بھی افغانستان میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ''اور وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کا اڈا بن جائے، جیسے کہ ماضی میں تھا۔ تو یہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے لیے ایک اور مشترکہ نقطہ ہو سکتا ہے۔‘‘
جنرل طلعت مسعود کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان مکمل طور پر چین پر انحصار ختم کرے۔ وہ کہتے ہیں، ''امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اُس کے لیے بھی جگہ خالی رکھے۔ یہ تیسرا نقطہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔‘‘