شی جن پنگ سربراہی اجلاس کے لیے ماسکو میں
20 مارچ 2023پیر کو 'امن کے سفر‘ پر روانگی سے قبل شی جن پنگ نے چین اور روس کے تعلقات کو خوش آئند قرار دیا۔ پیر کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور شی جن پنگ نے اپنے باہمی تعلقات کو خوش آئند قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے اتحاد کی مضبوطی کی تعریف کی۔ شی نے اپنے ماسکو کے سفر کو ''دوستی، تعاون اور امن کا سفر‘‘ قرار دیا، حالانکہ مغربی ممالک کی جانب سے چین پر یوکرین میں روس کی جنگ کے لیے خاموش حمایت اور روس کی سفارتی پشت پناہی کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی سنہوا میں چینی اخبار ''رشین گیزٹ‘‘ میں چینی صدر شی کے تحریر اور دستخط کردہ آرٹیکل کے حوالے سے چھپنے والی رپورٹ میں شی کا ایک بیان شامل ہے جس میں انہوں نے کہا، ''میں صدر پوٹن کے ساتھ تعلقات کے لیے مشترکہ طور پر ایک نیا وژن اپنانے کے لیے کام کرنے کا منتظر ہوں۔‘‘
چین ایک غیر جانب دار فریق؟
چین نے یوکرین کی جنگ میں خود کو ایک غیر جانبدار فریق کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کی وزارت خارجہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بیجنگ کییف اور ماسکو کے درمیان ''امن مذاکرات کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرے گا‘‘۔ پوٹن نے یوکرین کے بارے میں بیجنگ کے موقف کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنازعہ کو ختم کرنے میں ''تعمیری کردار‘‘ ادا کرنے کی خواہش کا اشارہ ہے۔ ساتھ ہی پوٹن کا کہنا تھا کہ چین اور روس کے تعلقات اس وقت ''اعلیٰ ترین مقام پر‘‘ ہیں۔
شی کے دورے کی روس کے لیے اہمیت
چینی صدر کا یہ دورہ عالمی سطح پر الگ تھلگ کیے جانے والے پوٹن کی پوزیشن کو تقویت دینے کے لیے اہم ہے، جو اتوار کو ایک اچانک دورے پر يوکرينی شہر ماريوپول پہنچ گئے تھے۔ روسی افواج نے پچھلے سال ستمبر ميں اس شہر پر قضہ کر ليا تھا اور تب سے لے کر اب تک يہ پوٹن کا اس علاقے کا یہ پہلا دورہ تھا۔
رپورٹوں کے مطابق روسی صدر ہيلی کاپٹر پر ماريوپول پہنچے جہاں انہوں نے شہر کے مرکزی مقامات کا دورہ کيا اور چند مقامی افراد سے بات چيت بھی کی۔ فوری طور پر ان کے اس دورے کی کوئی وجہ سامنے نہيں آئی تھی۔ اس سے ايک روز قبل پوٹن نے کريميا کا دورہ بھی کيا تھا، جس پر روس نے سن 2014 ميں قبضہ کر کے اسے روس میں ضم کر ليا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طور پر ملک بدر کرنے کے جنگی جرم کے الزام میں پوٹن کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں شی کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بیجنگ نے پیر کو کہا کہ آئی سی سی کو ''سیاست سازی اور دوہرے معیار‘‘ سے گریز کرنا چاہیے اور سربراہان مملکت کے لیے استثنیٰ کا احترام کرنا چاہیے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے ایک باقاعدہ بریفنگ میں کہا کہ اس عالمی عدالت کو ''ایک معروضی اور غیر جانبدارانہ موقف برقرار رکھنا چاہیے‘‘ اور بین الاقوامی قانون کے تحت سربراہانِ مملکت کے استثنیٰ کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے تنازع کا حل ''بات چیت اور مذاکرات‘‘ ہی سے ممکن ہے۔ وانگ وین بن کے بقول، ''نہ ہی چین اور نہ ہی روس 'روم کے قانون‘ پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں، جس نے آئی سی سی کو قائم کیا تھا۔‘‘
ک م/ ع ت( اے ایف پی)