صدر ٹرمپ کی جلد از جلد برخاستگی کا مطالبہ
8 جنوری 2021سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات سات جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے امریکی کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے سے متعلق بات چیت کی۔ ٹویٹر نے ان کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا تھا، جس کی بحالی کے بعد ان کی جانب سے یہ پہلا ویڈیو پیغام جاری کیا گيا ہے۔
اس ویڈیو میں انہوں نے تشدد کو ’’گھناؤنا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’تمام امریکیوں کی طرح میں بھی، لاقانونیت، تشدد اور تباہی سے نالاں ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ فسادیوں نے، ’’جمہوریت کی سیٹ کے تقدس کو پامال کیا ہے اور جن لوگوں نے بھی قانون کی خلاف ورزی کی ہے انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘
ان کا یہ نیا بیان ایک روز پہلے والے ان کے اس بیان سے بالکل مختلف ہے، جس میں انہوں نے انتخابات میں اپنے غیر مصدقہ دھاندلی کے دعوؤں کو بار بار دہرایا تھا۔ ایک ایسے وقت میں، جب ان پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی انہیں جلد از جلد عہدہ صدرات سے ہٹانے کی کوشش میں ہے، انہوں نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کو بغیر کسی رخنہ اندازی کے اقتدار کی منتقلی کا عہد کیا۔
انہوں نے کہا، ’’اب چونکہ کانگریس نے نتائج کی تصدیق کر دی ہے، 20 جنوری کو ایک نئی انتظامیہ کا افتتاح ہو گا۔ اب میری توجہ ہموار، منظم اور بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنانے پر ہو گی۔ بطور صدر امریکا کی خدمت کرنا میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے آخر میں یہ بھی کہا کہ ’’یہ تو بس ہمارے ناقابل یقین سفر کا آغاز ہے۔‘‘
تشدد پر اکسانے کا معاملہ
لیکن صدر ٹرمپ نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ انہوں نے ہی بدھ کے روز اپنے حامیوں کو نہ صرف اشتعال دلایا بلکہ کیپیٹل ہل کی عمارت کی جانب مارچ کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بولنے اور تشدد کے واقعات کے فوری بعد ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنا ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا، جسے بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ اس ویڈیو میں انہوں نے اپنے حامیوں کی تعریف کرتے ہوئے نہ صرف انہیں "خصوصی" بتایا، بلکہ انتخابی نتائج سے متعلق اپنے متنازعہ موقف کو بھی دہرایا تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں ٹویٹر نے ان کے اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا تھا۔
ٹویٹر نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا اگر ٹرمپ غلط بیانی اور تشدد پر اکسانے سے متعلق اصول و ضوابط کی خلاف ورزی جاری رکھیں گے تو ٹویٹر ان پر تاحیات پابندی عائد کر سکتا ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام نے بھی ان کے اکاؤنٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے۔
عہد صدارت سے ہٹانے کا مطالبہ
اس دوران آئندہ 20 جنوری کو جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی صدر ٹرمپ کو عہد صدرات سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے امریکی آئین کی 25ویں ترمیم کا بھی ممکنہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم کے تحت اگر صدر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض پورے کرنے میں ناکام رہے تو کابینہ کی اکثریت صدر کو اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے۔ حالانکہ اس طریقے پر عمل کے لیے نائب صدر کو پہل کرنا ہو گی۔
ٹرمپ کو ہٹانے کی مہم میں ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں ڈیموکریٹ رہنما چک شومر آگے آگے ہیں، جنہوں نے نائب صدر مائیک پینس سے 25ویں ترمیم کے تحت کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔ متعدد میڈیا رپورٹوں کے مطابق چونکہ نائب صدر پینس نے اس پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے، اس لیے اب ٹرمپ کے مواخذے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے عندیہ دیا ہے کہ اگر نائب صدر مائیک پینس کی قیادت میں کابینہ نے صدر ٹرمپ کو ہٹانے کے لیے 25ویں ترمیم کا استعمال نہ کیا تو وہ ان کے مواخذے کے لیے ایوان نمائندگان کا اجلاس طلب کر سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹک رہنماؤں کے ساتھ ساتھ معروف انگریزی اخبار 'دی وال اسٹریٹ جنرل' نے بھی اپنے اداریے میں صدر ٹرمپ کے استعفے یا پھر ان کی برخاستگی کی وکالت کی ہے۔ خود ٹرمپ انتظامیہ کے بعض سینئر اراکین بھی کیپیٹل ہل کے تشدد کے مخالفت میں مستعفی ہو چکے ہیں۔
ص ز/ ا ا (اے پی، روئٹرز)