صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ
8 فروری 2011صوبے میں سکیورٹی اہلکاروں پر تازہ حملے کا واقعہ پشاور سے کوئی 150 کلومیٹر جنوب کی جانب جانی خیل کے علاقے میں پیش آیا۔ دہشت گردوں نے سٹرک کے کنارے نصب ایک ریموٹ کنٹرول بم سے فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں دو فوجی اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا ہے جبکہ چار زخمی ہیں۔ ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
اس سے قبل طالبان عسکریت پسند سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافے کا اعلان کر چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں پشاور، بنوں اور ہنگو میں پولیس پر چار حملے کئے جا چکے ہیں۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر دو پولیس افسران سمیت پانچ اہلکار ہلاک جبکہ چودہ زخمی ہوئے۔ پشاور میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی نماز جنازہ پولیس لائز پشاور میں ادا کی گئی، جس میں گورنر خیبر پختونخوا، سپیکر اسمبلی اور پولیس افسران نے شرکت کی۔
پولیس پر پہلا حملہ پشاور کے نواحی علاقہ متھرا میں کیا گیا، جس میں پولیس چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس چیک پوسٹ پرگزشتہ سال بھی حملہ کیا گیا تھا، جس کے بعد اسے خالی کردیا گیا تھا۔ اس حملے کی اطلاع پرجب دیگر پولیس اہلکار علاقے میں پہنچے تو ان کی گاڑیوں کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہو گئےاور وین تباہ ہو گئی۔ سکیورٹی فورسز پر دوسرا حملہ بنوں کے علاقہ جانی خیل میں کیا گیا اس ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں دو اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے۔
اسی طرح گزشتہ روز ضلع ہنگو کے علاقے بلیامینہ میں عسکریت پسندوں نے پولیس کی گاڑی پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ اس حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ چھ شدید زخمی ہوگئے۔
پولیس اور سکیورٹی فورسز پرحملوں میں اضافے کے بارے صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کا کہنا ہے’’اس طرح، دہشت گرد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کر ر ہے ہیں تاکہ اہلکاروں کےحوصلے پست ہوں اور یہ لوگ اپنی کارستانی کر سکیں۔ ہم اپنی پولیس اورعوام پر فخر کرتے ہیں‘‘۔
بلور کا مزید کہنا تھا کہ’’میں بار بارکہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم نفسیاتی دباؤ میں آجائیں گے، عوام کے حوصلے پست ہوں گے یا ہمارے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں بد دلی پیدا ہوگی تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ لوگ اپنے کوشش میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ لوگ کچھ بھی کرتے رہیں ہمارے ادارے پہلے کی طرح ہی مضبوط ہیں‘‘۔
اسی طرح کے خیالات کا اظہار پشاور پولیس کے سربراہ لیاقت علی خان نے بھی کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی پولیس کو دبانے اور دھمکانے کی کوشیش کامیاب نہیں ہوں گی۔ پولیس تمام خطرات کے باوجود فرائض سرانجام دے رہی ہے اور دیتی رہے گی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق متھرا میں ہونے والے بم دھماکے میں آٹھ سے دس کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
پولیس پرحملوں میں اضافے کے بعد صوبے بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ میں اضافہ کردیا گیا۔ جبکہ پشاوراور ہنگو میں سرچ آپریشن کے دوران مجموعی طور پر122مشکوک افراد کوحراست میں لیا گیا ہے۔ ان افراد میں سے بعض کے قبضے سے بھاری اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن اب بھی جاری ہے۔
رپورٹ: فریداللہ خان پشاور
ادارت : عدنان اسحاق