صوتی لہروں سے بجلی پیدا کرنے کی کوششیں
13 اکتوبر 2010جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے کیلےمائن لوشن میں استعمال ہونے والے مرکزی عنصر زِنک آکسائیڈ کو ایک ایسے ننھے سے مادے میں تبدیل کر دیا ہے، جو آواز کی لہروں کو بجلی میں تبدیل کرتا ہے۔
اِس موضوع پر ہونے والے تحقیق کے نتیجے میں آگے چل کر ایسے پینل تیار کئے جا سکتے ہیں، جو گفتگو کی مدد سے موبائیل فونز کی بیٹریاں چارج کر سکتے ہوں یا پھر بہت زیادہ رَش والے اوقات میں ٹریفک کے شور کی مدد سے اتنی زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہوں کہ جو پورے ملک میں بجلی کی ترسیل میں نمایاں اضافے کا باعث بن سکتی ہو۔ شاہراہوں کے اردگرد ایسی دیواریں تعمیر کی جا سکتی ہیں، جو پاس سے گزرنے والی موٹر گاڑیوں کے شور کو ساتھ ساتھ برقی لہروں میں تبدیل کرتی رہیں۔
نوجوان جنوبی کوریائی سائنسدانوں یونگ جون پارک اور سانگ وُو کِم نے ’ایڈوانسڈ مٹیریلز‘ نامی جریدے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’جس طرح لاؤڈ اسپیکرز برقی سگنلز کو آواز میں بدل دیتے ہیں، اِسی طرح اِس عمل کو اُلٹ دینے سے آواز کو برقی توانائی میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے‘۔ اِس طریقے سے توانائی کے حصول کے طریقے کی بنیاد پِیزوالیکٹرکس نامی مادے پر ہے۔ اِس مادے کو خَم دیا یا موڑا جائے تو یہ مکینیکل توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کر دیتا ہے۔
بہت سے مادے پیزو الیکٹرک ہیں، جیسے کہ گنا، کوارٹس، حتیٰ کہ خشک کی ہوئی ہڈیاں بھی، جو دباؤ پڑنے کی صورت میں برقی چارج پیدا کرتی ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے سائنسدان پیزو الیکٹرکس میں برقی توانائی داخل کرتے رہے ہیں تاکہ اُنہیں ماحولیاتی سینسرز، اسپیکرز اور دیگر آلات میں استعمال کیا جا سکے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں سے سائنسدانوں کو پیزو الیکٹرکس والے آلات سے برقی توانائی کے حصول میں ڈرامائی کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اِن میں سے بہت سے آلات ابھی بازار میں نہیں آئے اور یوں عام صارف کی پہنچ میں نہیں ہیں تاہم یہ آلات کسی شخص کے پیدل چلنے، بھاگنے یا بات چیت کرنے کی صورت میں بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ابھی یہ بجلی بہت ہی قلیل مقدار میں پیدا ہو پا رہی ہے اور سائنسدانوں کی کوشش یہی ہے کہ اِس پیدا شُدہ بجلی کی مقدار میں اضافہ کیا جائے۔
سائنسدان آواز کی طاقت کو استعمال میں لانے کے منصوبے بہت طویل عرصے سے بنا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے کچھ بدقسمت جانوروں پر تجربات بھی کئے گئے اور اُنہیں انتہائی زیادہ طاقتور آواز کا ہدف بنا کر دیکھا گیا۔ اِس تیز آواز سے اِن جانداروں کے اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچا، اُن کے جسمانی خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے اور خون بہنا شروع ہو گیا۔ فوجی شعبے میں اِس تکنیک کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ فوجی منصوبہ سازوں کے خیال میں میدانِ جنگ میں بہت سے لاؤڈ سپیکروں کا رُخ دشمن کی طرف کر کے طاقتور آواز چھوڑی جا سکتی ہے اور یوں روایتی ہتھیاروں سے ایک بھی گولی فائر کئے بغیر بڑے پیمانے پر تباہی مچائی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب اِس طاقت سے زیادہ تعمیری انداز میں کام لینے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اِس طاقت کی مدد سے شور سے ہونے والی آلودگی روکی جا سکتی ہے اور اِس سے انجنوں کو چلانے کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ نیو میکسیکو کی لاس ایلاموس نیشنل لیباریٹری کے محققین کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے آواز کی لہروں سے چلنے والا ایک ایسا ماحول دوست انجن بنایا ہے، جس میں کوئی متحرک حصے ہی نہیں ہیں۔ اس انجن کو اُنیسویں صدی کے سائنسدان رابرٹ سٹرلنگ کے ایجاد کردہ پمپ کے اصول پر تیار کیا گیا ہے۔ سٹرلنگ نے یہ دریافت کیا تھا کہ گیسوں کو ٹھنڈا اور گرم کرنے سے پسٹن کو چلایا جا سکتا ہے۔ تھرمو اکوسٹک سٹرلنگ ہِیٹ انجن اپنے اندر موجود گرم گیس ہیلیم سے آواز پیدا کرتا ہے۔ آواز کی یہ لہریں پسٹن کو حرکت میں لاتی ہیں، جو جوابی ردعمل کے طور پر بجلی پیدا کرتا ہے۔
یہ تجرباتی انجن تیار کرنے والے انجینئرز میں سے ایک گریگ سوفٹ نے کہا،’اِس طرح کے کم قیمت والے انجن گھروں میں بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے جا سکے ہیں۔ اِن سے بیک وقت بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور پانی گرم کرنے کے لئے حرارت بھی حاصل کی جا سکتی ہے‘۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ