طالبان ترجمان مسلم خان چار ساتھیوں سمیت گرفتار
11 ستمبر 2009افواج پاکستان نے تحریک طالبان کے اہم کمانڈر اور ترجمان مسلم خان سمیت پانچ عسکری رہنماوٴں کو وادی سوات کے شہر مینگورہ سے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کرنے کا باضابطہ اعلان کچھ دنوں کی تاخیر سے کیا۔ فوج کے مطابق اب سوات وادی مکمل طور پر طالبان کے اثر سے پاک ہوگئی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے مسلم خان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی گرفتاری کے بارے میں اس وجہ سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں کیونکہ ان کی نشاندہی پر سوات میں مزید چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
عباس کے مطابق ان گرفتاریوں سے سوات میں طالبان کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور اس تنظیم کو بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ وادیء سوات میں طالبان کے رہنما مولانا فضل اللہ کے بعد مسلم خان پاکستانی فوج کی مطلوب کمانڈرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھے۔
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے مسلم خان کی گرفتاری کی تصیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان عسکریت پسندوں کے پاس ہتھیار پھینک کر گرفتاری دینے یا پاک فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
مسلم خان کے ساتھ گرفتار کئے گئے طالبان کمانڈروں میں شموزئی کے کمانڈر فضل غفار عرف مفتی بشیر ، تحصیل چارباغ کے کمانڈر عبدالرحمن ، کمانڈر محمود خان اور تحصیل مٹہ کے کمانڈر شمشیر کے رشتہ دار سرتاج شامل ہیں۔ صوبائی حکومت نے گرفتار شدہ کمانڈروں میں مسلم خان اورمحمود خان کے سر کی قیمت ایک ، ایک کروڑ روپے مقرر کی تھی۔
طالبان کے ترجمان مسلم خان کو انگریزی ، عربی ، فارسی اور پشتو پر عبور حاصل تھا وہ زیادہ تر امریکی اور برطانوی نشریاتی اداروں کو خود فون کرکے معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔ سیکیورٹی ماہرین مسلم خان اوران کے چار ساتھی کمانڈروں کی گرفتاری کوپاکستانی افواج کی ایک اہم کامیابی قراردیتے ہیں۔
قبائلی امور کے ماہر بریگیڈ ئیر (ر) محمودشاہ کاکہناہے کہ مسلم خان کی گرفتار ی ایک اہم پیش رفت ہے، جس سے فضل اللہ اور دیگر طالبان کمانڈروں تک رسائی میں مدد ملے گی۔ ان کا کہا ہے کہ سوات کے لوگوں کی نفسیات پرمسلم خان کی کارروائیوں کی وجہ سے ایک بہت بڑا بوجھ تھا جو اب کم ہوگیا ہے۔
تحریک طالبان کے ترجمان مسلم خان امریکہ برطانیہ اور عرب سمیت پانچ ممالک میں ایک عرصہ تک مختلف کمپنیوں سے وابستہ رہے ۔ مسلم خان کا طالبان کے ہاتھوں سوات میں ڈھائی سو سے زیادہ سکولوں کی تباہی کے بارے میں موقف رہا ہے کہ ان سرکاری سکولوں میں مغربی تعلیم دی جاتی تھی، جبکہ ان کا اپنا بیٹا ایک عرصے تک پشاور یونیورسٹی کے شعبہء فارمیسی میں زیر تعلیم رہا ہے۔
اپنے بیٹے کی فارمیسی کی تعلیم کے بارے میں وہ کہتے رہے ہیں کہ اسلام میں ادویات اورطب کے بارے میں تعلیم کے حصول میں ممانت نہیں ہے، تاہم اپنے بیٹے کے تعلیمی مشاغل کے بارے میں یہ راز فاش ہونے کے بعد انہوں نے اُسے پشاور یونیورسٹی سے نکال کر ایک محفوظ مقام پرپہنچا دیا تھا۔
مسلم خان نے طالبان کے ہاتھوں فوج ،پولیس اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کے گلے کاٹنے اور سر عام ان کے سر کٹے لاشوں کی نمائش اور سرکاری عمارتوں بموں سے اڑانے کو جائز قرار دے کر اس کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں۔
سوات میں قاضی عدالتوں کے قیام کے اعلان کے بعد جب طالبان کی جانب سے ایک کم عمر لڑکی کو سرِعام کوڑے مارنے کی ویڈیو منظر عام پرآئی تھی تومسلم خان نے اس ویڈیو میں طالبان کے مظالم کو بھی جائز قرار دیا تھا۔
رپورٹ: فریداللہ خان
ادارت: انعام حسن