طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
یہ تصاویر ایران میں جاری عوامی مظاہروں سے متعلق ہیں۔ ان مظاہروں نے کس طرح ایران کو جکڑا ہوا ہے اور کس طرح بین الاقوامی سطح پر مظاہرین کی حمایت جا رہی ہے۔
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
اطالوی دارالحکومت روم کے رہائشیوں کا ایک گروپ ایرانی اور افغان خواتین کی حمایت میں جمع ہو کر یکجہتی کا اظہار کرتا ہوا۔ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے پر طالبان کی مذمت اور فارسی اور دیگر کئی زبانوں میں’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے نعرے ان کے احتجاجی پلے کارڈز پر لکھے تھے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر بینرز نذر آتش
ایرانی قدس فورس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی سے قبل ان کی یاد میں لگائے گئے بینرز اپوزیشن کے پُرتشدد مظاہروں کا نشانہ بنے۔ حالیہ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی کئی بار جنرل سلیمانی کی تصاویر کو احتجاج کے طور پر جلایا گیا۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ تین جنوری دو ہزار بیس کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تہران میں فضائی آلودگی اور شہر کے میئر کی تقریر
تہران میں فضائی آلودگی کی سطح اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ صحت مند افراد کو بھی سانس اور دل کے مسائل لاحق ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گھر میں بھی وہ کھڑکیاں کھول کر ہوا کی آلودگی محسوس کر سکتے ہیں۔ تہران کے میئر نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے واقعہ کربلا سے لے کر حالیہ مظاہروں تک ہر چیز پر بات کی اور حکومت کے مخالفین کو ’مسخرہ‘ قرار دیا لیکن فضائی آلودگی کی وجہ سے عوام کی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیا۔
ایران میں مسیحیوں کے نئے سال کی خوشیاں ماند
گرچہ ایران میں اب بھی عوامی مظاہرے جاری ہیں اور حکومت نے اس کے خلاف جبر کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ تاہم ان حالات میں بھی ایرانی کے مسیحی باشندے نئے سال کو خوش آمدید کہنے چرچ گئے۔ تہران میں رہنے والے آرمینیائی باشندے ہولی سرکیس چرچ میں جمع ہوئے تاکہ وہاں پرامن طریقے سے اپنی تقریب کا انعقاد کر سکیں۔
زاہدان میں انصاف کی تلاش
زاہدان میں کئی ہفتوں سے ہر جمعہ کو احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں اس شہر میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن احتجاج بدستور جاری ہے۔صوبہ سیستان و بلوچستان میں بھی عوامی بغاوت کی حمایت کی جا رہی ہے۔
ایران کی شطرنج کی نمبر ایک خاتون کھلاڑی کا اسپین کوچ کرنے کا ارادہ
اسلامی جمہوریہ کے پرچم کے ساتھ حجاب کے بغیر قازقستان کے شہر الماتی میں شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کرنے والی ایران میں شطرنج کی نمبر ون خاتون کھلاڑی سارہ خادم الشریعہ اسپین ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ علی رضا فیروزجا کے بعد وہ ایران کی دوسری بہترین شطرنج کھلاڑی ہیں، جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔
تہران کی آزاد یونیورسٹی میں بسیج کے دفتر میں آتش زدگی
ایران میں طلبا کی ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق، شمالی تہران میں واقع آزاد یونیورسٹی کے بسیج دفتر کو جمعرات 29 دسمبر کی صبح تقریباً 4 بجے ایک نامعلوم شخص نے آگ لگا دی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور دفتر پر آتش گیر مادے کے ساتھ حملہ کیا۔ بظاہر آگ سے خواتین اور بسیج دفتر کے بیرونی حصے کو نقصان پہنچا۔ بسیج ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک نیم فوجی دستہ ہے۔
’ اپنی قیمتی جان پر رحم کرو‘
فرانس میں مقیم ایک ایرانی طالب علم محمد مرادی کی خودکشی کے جواب میں حامد اسماعیلیون نے لکھا، ’’کاش میں آپ کے اس فیصلے سے پہلے آپ سے بات کر سکتا اور آپ کو بتاتا کہ ہم اُنہیں شکست دیں گے۔ آپ کی قیمتی اور پیاری زندگی کے ضیاع پر صد افسوس۔‘‘ متعدد ایرانیوں اور لیون شہر کے رہائشیوں نے محمد مرادی کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
تہران کا بدلا ہوا چہرہ
یہ لندن، پیرس یا نیویارک کی گلی نہیں ہے، یہ کرسمس کے پہلے دن یعنی 25 دسمبر کو تہران کی مرزائی شیرازی اسٹریٹ ہے۔
خاموش احتجاج
شاید سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے شعلے کچھ کم ہو گئے ہوں لیکن ایران کی گلیوں میں جو کچھ ان دنوں نظر آرہا ہے اسے احتجاج کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خواتین سڑکوں پر حجاب کے بغیر اور پُرسکون انداز میں چل رہی ہیں، 40 سال سے جبری حجاب کا بوجھ اپنے سروں اور چہروں سے اتار کر۔
’ ہم ایک جیسے نہیں ہیں‘
اسلامی جمہوریہ ایران میں سزائے موت سنانے اور اس پر عمل درآمد کے خلاف مظاہرے مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ’’آپ صبح 5 بجے اٹھتے اور نماز پڑھتے ہیں جبکہ میں اسی وقت پھانسی کے خوف میں مبتلا ہوتا ہوں۔ ہم ایک جیسے نہیں ہیں۔‘‘ اردبیلی یونیورسٹی میں یہ تازہ گریفٹی ہے جس پر محسن شکاری اور ماجدرضا رہنورد کے نام درج ہیں۔ ان دونوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
جہالت اور سچائی
یہ مشترکہ تصویر سوشل نیٹ ورکس پر شائع کی گئی۔ دائیں طرف کی تصویر 13 نومبر کو ہونے والے حکومتی مظاہروں اور ’’یورپ کی سخت سردی کے لیے لوگوں کی امداد‘‘ کے لیے ایک کلیکشن پوائنٹ کے قیام سے متعلق ہے اور بائیں طرف کی خبر گیلان صوبے میں دفاتر اور بینکوں کی بندش سے متعلق ہے۔ ایک صارف نےاس تصویر کی تفصیل میں لکھا، ’’دو تصویروں کے درمیان کا فاصلہ ڈیڑھ ماہ کا نہیں، یہ جہالت اور سچائی کے درمیان کا فاصلہ ہے۔‘‘
دار و رسن اور لہو رستی آنکھیں
ایرانی جشن یلدا سے کچھ دیرقبل ایرانی باشندوں نے دی ہیگ میں ڈچ پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہو کر دکھایا کہ ایران میں مظاہرین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ گلے میں رسیاں، ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے اور ایک طرف خون آلود آنکھیں اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ کا پھانسی کا تختہ اور اس کے جسم پر یورپی یونین کی قینچی۔ اس سے مظاہرین اشارہ دے رہے تھے کہ یورپ ایران میں سزائے موت اور مظاہرین کو کچلنے کےخلاف کچھ کرے۔
یلدا کی چالیسویں رات
بہت سے ایرانییوں نے اس سال کے یلدا کو خوشی اور مسرت کے ساتھ نہیں بلکہ غم اور سوگ کے ساتھ منایا۔ اس سال بہت سے لوگوں کی ایک نہیں بلکہ کئی قیامت خیز اور طویل راتیں گزریں اور صبح خوف اور بے خوابی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اس سال کا یلدا آغا افضلی کے 40 ویں کے موقع پر آیا، جو ایک 19 سالہ نوجوان تھا۔ اسے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور وہ رہائی کے چند دن بعد اپنے گھر میں ہی انتقال کر گیا تھا۔
میکسیکو میں ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
میکسیکو کے متعدد شہریوں نے ملکی دارالحکومت میکسیکو سٹی میں ایران کے سفارت خانے کے سامنے جمع ہو کر ایرانی عوام کی بغاوت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کیا اور خاص طور پر امیر نصر آزادانی کو سزائے موت دینے کی مذمت کی۔
’یلدا احتجاج‘
اٹھائیس، انتیس اور تیس دسمبر کی ٹیلیفون کالز سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔ ان کالز میں تمام لوگوں کو مظاہروں اور ہڑتالوں میں حصہ لینے کی دعوت گئی۔ 30 دسمبر کو مظاہرین کے احتجاج کا نقطہ عروج قرار دیتے ہوئے اسے یلدا رات سے تعبیر کیا گیا اور احتجاج کو ’یلدا احتجاج‘ کہا گیا۔ یلدا دراصل طویل ترین رات سے شروع ہونے والا تہوار مانا جاتا ہے۔
ایرانیوں کی بغاوت کی حمایت جرمن دارالحکومت میں
ایران میں ملک گیر احتجاج اور سیاسی قیدیوں کی حمایت میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے جرمن دارالحکومت میں مظاہرہ کیا۔ قید کیے گئے مظاہرین میں سے کچھ پر جنگ اور فساد پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے اور ایران ان لوگوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایرانی عوام کی بغاوت اور بین الاقوامی برادری کی حمایت
کلکتہ میں فیڈریشن آف ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آف انڈیا نے ایرانی خواتین کی احتجاجی تحریک کی حمایت کی۔ صنفی امتیاز اور پدرسری نظام پر تنقید کرتے ہوئے، بھارتی طلباء نے ایرانیوں کی ملک گیر تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کیا۔
ایران کے قونصل خانے کے سامنے بھوک ہڑتال
ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عوامی بغاوت کی حمایت کے لیے جرمن شہر فرینکفرٹ میں اسلامی جمہوریہ کے قونصل خانے کے سامنے ایک خیمے میں بھوک ہڑتال اور دھرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ 21 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔