طالبان کے خلاف افغان فوج کے آپریشن ’ ذوالفقار‘ کا آغاز
2 مارچ 2015کابل حکام کی طرف سے یہ فوجی کارروائی اس سال کے موسم بہار کے معمول کے جنگی سیزن سے پہلے پہلے ہی کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ افغان فوج طالبان جنگجوؤں کی بروقت سرکوبی کر کے انہیں ایک فیصلہ کُن دھچکا لگانا چاہتی ہے۔
افغان فوج جنوبی صوبے ہلمند میں ایک زرخیز دریائی وادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسپیشل فورسز رات کے وقت ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مٹی اور اینٹوں کے بنے ہوئے کمپاؤنڈز پر چھاپے مار رہی ہیں جبکہ زمینی فورسز آہستہ آہستہ پوست کے کھیتوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یہی فصلیں گزشتہ سالوں میں طالبان عسکریت پسندوں کی نقد آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہیں۔
امریکی اور برطانوی فوجی دستوں کو اسی علاقے میں بھاری نقصانات کا سامنا رہا ہے۔ ایک عشرے پر محیط جنگ کے دوران جن علاقوں پر اتحادی فورسز کا قبضہ رہا وہاں افغان فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مقبوضہ علاقے غیر تربیت یافتہ اور ہتھیاروں کے فقدان والی افغان نیشنل آرمی کے ہاتھوں سے بھی نکل گئے۔
افغان صدر اشرف غنی نے اس علاقے میں جنگی حصار کو توڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس تازہ ترین فوجی آپریشن کو گزشتہ ستمبر میں ملکی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالنے والی افغان فوج اور پولیس کے لیے ایک امتحان سمجھا جا رہا ہے جس میں انہوں نے ثابت کرنا ہے کہ وہ خود تنہا مکمل طور پر باغیوں سے لڑنے اور انہیں شکست دینے کے قابل ہیں۔
اس آپریشن کی منصوبہ بندی میں ذاتی طور پر افغان صدر اشرف غنی شامل رہے ہیں۔ اسے ’ ذوالفقار‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’دو دھاری تلوار‘ ۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے آپریشنز کے ڈپٹی چیف میجر جنرل کورٹ فُولر کے مطابق آپریشن ’ ذوالفقار‘ کا آغاز دس فروری سے ہو چُکا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی رواں ماہ کے اوآخر میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے جہاں سے انہیں امریکی فوج کے تعاون اور امداد کی توقع ہے۔ خاص طور سے فضائی امداد کی امید کی جا رہی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مغربی سفارتکار نے آپریشن ’ ذوالفقار‘ کے بارے کہا،"یہ ایک ناقابل یقین حد تک اہم آپریشن ہے۔ یہ صدر غنی کی طرف سے امریکا اور امریکی کانگریس پر ثابت کرنے کا اہم موقع ہے کہ افغان بری فورسز سبقت لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اگر انہیں مناسب حمایت اور موقع میسر ہو تو وہ اس آپریشن کو کامیاب بنا سکتی ہیں۔"
آپریشن ’ ذوالفقار‘ ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب کابل حکومت طالبان کی روایتی موسم بہار کی جنگ سے پہلے پہلے طالبان باغیوں کے لیڈروں کے ساتھ امن مذاکرات کی جانب بڑھنے کی غرض سے ابتدائی مکالمت شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سال موسم بہار کی جنگ سے بہت زیادہ خونریزی کا خوف پایا جاتا ہے کیونکہ طالبان جنگجو اب افغان نیشنل فورسز کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ آیا امریکا اور نیٹو دستوں کی پشت پناہی کے بغیر افغان فوج اُن سے مقابلے کی اہل ہے۔