طوفانوں، سیلابوں، جنگلاتی آگ اور خشک سالی سے لاکھوں بے گھر
23 مئی 2021سن 2020 کے دوران جنگوں اور مسلح تنازعوں کے علاوہ مختلف موسمی اور قدرتی آفتوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد سے متعلق بین الاقوامی ادارے انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر(IDMC) کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف علاقوں میں آنے والے طوفانوں، شدید بارشوں، سیلابوں، جنگلاتی آگ اور خشک سالی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ زمین کے درجہء حرارت میں اضافہ خیال کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر گزشتہ برس 40.5 ملین افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔
عالمی یوم الارض، زمین کی حفاظت سب کی یکساں ذمہ داری
داخلی مہاجرت کرنے والوں کی تعداد دوگنا
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اپنے ہی ملکوں کے اندر مہاجرت اختیار کرنے والوں کی تعداد پچپن ملین کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ مختلف ملکوں میں مقیم مہاجرین کی تعداد سے دوگنا ہے۔ پچپن ملین میں 9.8 ملین وہ افراد بھی شامل ہیں جنہیں اپنے ہی ملکوں میں مسلح تنازعوں اور جنگی حالات کا سامنا ہے۔
اس مہاجرت کا شکار ہونے والوں میں بڑی تعداد ان افراد کی ہے جنہیں شدید موسم کی صورت حال کا بھی سامنا ہے۔ یہ لوگ روزمرہ کی زندگی میں زمین سے نکلنے والے ایندھن یا حیاتیاتی ایندھن کا استعمال کرتے ہیں، جو موسمی درجہء حرارت بڑھانے کا ایک سبب ہے۔ شدید موسم کی وجہ سے ہر ماہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر کسی دوسرے مقام کی جانب منتقل ہونے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پینتالیس پاکستانی این جی اوز قدرتی آفات کے خلاف متحد
سیاست دانوں کو خوف لاحق
ترقی سے محروم اور غریب ممالک کے اندر بڑھتی بے گھری نے سیاستدانوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ مسلسل بڑھتی بے گھری کا سامنا کیسے کریں گے۔ یہ بے گھری ویسے بھی غریب ممالک کا المیہ ہے۔ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے اپنا گھر بار چھوڑنے والے لوگ شہروں کی جانب بڑھ رہے ہیں، ان کے لیے سہولیات فراہم کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شدید موسم سے پیدا ہونے والی آفتوں سے متاثر ہونے والے افراد دوسرے ملکوں کی سرحدوں کی جانب بھی جانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
کلائمیٹ، تشدد اور بے گھری
انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر نے اپنی چھٹی سالانہ رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ سن 2020 میں مجبوری کے تحت گھروں کو خیرباد کہنے والے اسی فیصد افراد کا تعلق ایشیائی اور افریقی ممالک سے ہے۔ براعظم ایشیا میں شدید موسمی حالات کے شکار افراد کا تعلق چین، بنگلہ دیش، ویتنام، فلپائن اور انڈونیشیا سے ہے۔ ان ممالک میں لاکھوں افراد دریائی ڈیلٹاز اور زیریں علاقوں میں مقیم ہیں۔ ان علاقوں میں تیز رفتاری سے بڑھتی آبادی اور شہروں کے قیام نے لاکھوں افراد کو موسمی آفتوں یعنی سمندری طوفانوں، موسلا دھار بارشوں، خطرناک سیلابوں اور جنگلاتی آگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
بیس ممالک میں شدید بھوک کے بحران کا خطرہ، اقوا م متحدہ
براعظم افریقہ میں سن 2020 کے دوران سب سے زیادہ بے گھری مسلح تنازعات کی وجہ سے ہوئی۔ مسلسل تشدد کی فضا برقرار رہنے سے لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت حال والے ممالک میں اب ایتھوپیا، برکینا فاسو اور موزمبیق بھی شامل ہو گئے ہیں۔
ایتھوپیا میں پیدا ٹیگرے علاقے کے تنازعے میں نصف ملین افراد نے مہاجرت اختیار کی۔ شدید بارشوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پہلے سے مہاجرت کے شکار افراد کو صومالیہ، سوڈان اور جنوبی سوڈان اور نیجر میں ایک بار پھر بے گھر ہونا پڑا۔ یہ ممالک مسلح تنازعات کا بھی شکار ہیں۔
شدید موسم میں اضافہ
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کے مختلف حصوں میں شدید موسمی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس موسمی صورت حال میں کمی نہیں پیدا ہو رہی بلکہ مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس آسٹریلیا میں شدید گرمی میں لگنے والی جنگلاتی جھاڑیوں کی آگ میں تیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سمندری طوفانوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے اور ان کی وجہ سے اربوں ڈالر کا نقصان کئی ملکوں کو برداشت کرنا پڑا ہے۔
نیا گلوبل کلائمیٹ انڈکس: مسلسل متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی
زمین کے ٹمپریچر میں اضافے کی وجہ سے سمندر کی سطح بھی بلند ہو رہی ہے۔ یہ صورت حال کئی شہروں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ مختلف ملکوں میں آنے والے سیلابوں سے بھی ہزاروں افراد کو دوسرے مقامات پر منتقلی اختیار کرنا پڑی۔
اجیت نریجن (ع ح، ب ج)