عالمی سمندروں میں اوئسٹرز کے ماحولیاتی نظام شدید خطرے میں
4 فروری 2011اوئسٹر ایک ایسا آبی جانور ہے، جو سخت چونے اور دیگر کیمیائی مادوں سے بنے اپنے اس سخت خول کے اندر رہتا ہے، جسے سیپ بھی کہتے ہیں۔ اس مچھلی کا جیلی کی طرح کا لعاب دار گوشت دنیا کے تقریباﹰ سبھی ملکوں میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔
یہی کستورا مچھلی، جسے سمندری حیات کے ماہرین سیپ کے کیڑے کا نام بھی دیتے ہیں، مخصوص حالات اور بہت زیادہ دباؤ کے زیر اثر اپنے سیپ میں اس قدرتی موتی کے وجود میں آنے کا سبب بھی بنتی ہے، جو صدف کہلاتا ہے اور اسی مناسبت سے اس مچھلی کا ایک نام صدفہ بھی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اوئسٹرز کی مجموعی آبادی اور ان کی بقا کے لیے ضروری خاص طرح کے سمندری ماحولیاتی نظاموں کی دستیابی سے متعلق اس تازہ تحقیقی منصوبے کی سربراہی مائیکل بَیک نامی معروف امریکی محقق نے کی۔ اس ریسرچ کے لیے امریکی شہر سانتا کروز میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کو Nature Conservancy کے محققین کی مدد بھی حاصل رہی۔
اس تحقیق کے حیاتیاتی سائنسی علوم کے امریکی انسٹیٹیوٹ کے جریدے ’بائیو سائنس‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہونے والے نتائج کے مطابق اوئسٹرز، جنہیں انگریزی میں شیل فش اور عربی میں المحار کہا جاتا ہے، اپنے قدرتی سمندری ماحول میں اس وقت زیادہ بہتر طور پر نشو ونما پاتے ہیں، جب ان کے زیادہ تر مونگے کے ڈھانچوں والے ecosystems کو کسی نے خراب نہ کیا ہو۔
لیکن براعظم شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت کرہء ارض کے بہت سے سمندری خطوں میں کستورا مچھلی کے قدرتی ماحولیاتی نظاموں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسے قریب 85 فیصد ایکو سسٹم یا تو اپنی اوئسٹر کی روایتی آبادیوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں یا پھر وہاں پائی جانے والی شیل فش مختلف بیماریوں اور تجارتی بنیادوں پر بہت زیادہ شکار کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
مائیکل بَیک اور ان کے ساتھیوں نے اپنی ریسرچ سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دنیا کے 63 فیصد سمندری ماحولیاتی خطوں اور کم گہرے سمندری ساحلی علاقوں میں سے 70 فیصد میں زیر آب نباتات میں گھرے ایسے مونگوں کا تناسب ماضی کی نسبت اب 10 فیصد بھی نہیں رہا، جہاں پہلے بہت بڑی مقدار میں کستورا مچھلی پائی جاتی تھی۔
’بائیو سائنس‘ میں چھپنے والے ان تحقیقی نتائج کے مطابق شمالی امریکی براعظم کے مشرقی حصوں اور خلیج میکسیکو کے علاقے میں خاص کر اوئسٹرز کی افزائش نسل کے لیے ضروری ایکو سسٹم ابھی تک موجود تو ہیں مگر وہ اپنی افادیت میں بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔
اس تحقیقی منصوبے کے شرکاء نے تجویز پیش کی ہے کہ ان علاقوں میں جہاں کستورا مچھلی کی آبادی بہت کم ہو چکی ہے، یا جہاں مونگوں کی موجودگی تیز رفتاری سے زوال کا شکار ہے، تجارتی بنیادوں پر اوئسٹر کے شکار پر پابندی لگائی جانی چاہیے، کم از کم اس وقت تک، جب تک وہاں محار کی مختلف قسموں کی آبادی دوبارہ اپنی تقریباﹰ پہلی جیسی سطح پر نہیں آ جاتی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی