عالمی طاقتیں اور ایران جوہری مذاکرات کی ڈیڈلائن میں توسیع کے لیے سرگرداں
24 نومبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فریقین کے درمیان موجود واضح اختلافات کی وجہ سے اب تک کسی حتمی معاہدے پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے اور وقت کی تنگی کی وجہ سے اب اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح طے شدہ ڈیڈلائن میں توسیع کر کے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، روس، برطانیہ، چین اور فرانس پلس جرمنی کے درمیان اس پیچیدہ موضوع پر مذاکرات کا سلسلہ اتوار کے روز بھی جاری رہا۔ واضح رہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کا معاملہ حل کرنے کے لیے طے شدہ ڈیڈلائن پیر کو اختتام پذیر ہونے کو ہے۔
ان مذاکرات کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت سے دور رکھنا ہے جب کہ ایران اس سلسلے میں کسی حتمی معاہدے کے ذریعے خود پر عائد سخت ترین عالمی پابندیوں میں نرمی چاہتا ہے۔
مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے جبکہ ایران ان الزامات کو رد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو خالصتاﹰ پرامن قرار دیتا آیا ہے۔
ڈیڈلائن کے اختتام سے ذرا پہلے فریقین کے درمیان مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں جبکہ باہمی اختلافات کی وسعت کی وجہ سے یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ اس مختصر مدت تک ایران اور عالمی طاقتیں کسی حتمی معاہدے پر اتفاق رائے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسی واسطے اب اس مدت میں توسیع پر غور کیا جا رہا ہے، تاکہ حتمی معاہدے کے لیے دستیاب وقت میں اضافہ کیا جا سکے۔
امریکی محکمہء خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام مغفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیز رفتاری سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم اختلافات متعدد ہیں اور وقت قلیل۔
اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا، ’اس لیے مدت میں توسیع ایک آپشن ہے، جس پر بات چیت جاری ہے۔ تام اس بات پر حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ایرانی مذاکرات کاروں کے ساتھ متعدد امور پر بات چیت کر رہے ہیں۔‘
ایک ایرانی ذریعے نے بھی اے ایف پی سے بات چیت میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے درمیان جمعرات سے اب تک چھ ملاقاتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک کچھ بھی ٹھوس بات طے نہیں ہوئی ہے۔
دوسری جانب برطانوی وزیرخارجہ فِلِپ ہیمنڈ نے تاہم اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ فریقین پیر کی صبح ایک مرتبہ پھر کوشش کریں گے کہ کچھ اہم معاملات پر اتفاق ہو جائے۔ ’ظاہر ہے اگر ہم اس قابل نہ ہو پائے، تو پھر ہم یہ سوچیں گے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔‘
روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے بھی اتوار کی سہ پہر جواد ظریف اور جان کیری سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ وہ جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر سے بھی ملے۔
مذاکرات میں شرکت کے لیے برطانوی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ ویانا پہنچ چکے ہیں جب کہ چینی وزیرخارجہ بھی پیر کے روز ویانا پہنچ رہے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اتوار کے روز امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسی کسی ڈیل سے ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے ایران اور امریکا ہی کے تعلقات نہیں بلکہ ایران اور دنیا کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہو سکتا ہے۔