1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عام انتخابات 2018ء: جمہوری عمل کی فتح

شیراز راج
25 جولائی 2018

خدشات کے برعکس چاروں صوبوں میں ووٹ ڈالنے کا عمل نسبتاﹰ ’آزاد اور شفاف ماحول‘ میں ہوا۔ بلوچستان اور تربت میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعات کے علاوہ انتخابی عمل پرامن رہا اور دھاندلی کا کوئی سنگین الزام سامنے نہیں آیا۔

https://p.dw.com/p/324yg
Pakistan Wahlen in Lahore
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں رائے دہی کا عمل مکمل ہونے کے بعد عمومی طور پر انہیں ’شفاف اور آزادانہ قرار‘ دیا جا رہا ہے۔ چاروں صوبوں میں خواتین و حضرات نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ بلوچستان اور تربت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ چند حلقوں میں سیاسی کارکنوں میں جھڑپیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر انتخابات پر امن رہے۔ بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ گزشتہ انتخابات کی نسبت زیادہ رہا۔ بعض ماہرین ٹرن آؤٹ کو 60 فیصد تک قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور میڈیا سیل کے ذمہ دار افتخار درانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انتخابات کو شفاف اور آزادانہ قرار دیا اور مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کے الفاظ میں، ’’قوم نے شدید گرمی میں عمران خان کی کال پر باہر نکل کر ایک بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ انتخابی عمل مجموعی طور پر پرامن رہا۔‘‘ پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کے اضافہ کے مطالبے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ مطالبہ مسلم لیگ نون کی مایوسی کا اظہار تھا اور ہمیں دونوں صورتوں میں کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ ایک یا دو گھنٹہ بڑھ جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‘‘ افتخار درانی نے پی ٹی آئی کی جیت کے متعلق اپنے مکمل یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہم انشا اللہ حکومت بنائیں گے۔ دراصل مغرب اور خصوصاﹰ بھارت میں عمران خان کے خلاف جو پراپیگنڈہ کیا گیا، اس کے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ پاکستان کے اندر ووٹر نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔‘‘

Pakistan Parlamentswahlen
تصویر: Reuters/F. Mahmood

قبل ازیں پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے متعلق سنگین خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ بیشتر ماہرین کا کہنا تھا کہ انتخابات انتہائی پرتشدد ہوں گے اور یہ صورت حال اس قدر سنگین ہو جائے گی کہ انتخابات ملتوی کرنا پڑیں گے۔ دوسری طرف بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات، جن میں ڈیڑھ سو سے زائد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے اور داعش اور لشکر جھنگوی کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ خدشات مزید تقویت اختیار کر گئے۔ مذید براں انسانی حقوق کمیشن سمیت بیشتر مبصرین کی جانب سے قبل از انتخابات دھاندلی کے الزامات کے سبب آزادانہ اور شفاف انتخابات کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔

سینئر صحافی، دانشور اور پیپلز پارٹی کے پنجاب میڈیا سیل کے انچارج سجاد انور نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عام انتخابات کو خوش آئند قرار دیا۔ ان کے مطابق، ’’پیپلز پارٹی پنجاب میں بہتر کارکردگی کی توقع کر رہی ہے۔ ہم نے اپنے کارکن اور ووٹروں کو متحرک کیا ہے۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ  پیپلز پارٹی کی کل نشستیں 60 کے لگ بھگ ہوں گی۔ پنجاب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف کا وطن واپس آنا اور جیل جانا مسلم لیگ (ن) کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

پاکستان میں عام انتخابات اور آزادی صحافت کی صورتحال

معروف سیاسی مبصر اور کالم نگار سلمان عابد کا ڈی ڈبلیو سے کہنا تھا، ’’اگرچہ یہ انتخابات مکمل طور پر پر امن ثابت نہیں ہوئے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک پرامن انتقال اقتدار ہے اور اس پر پوری قوم کو مبارک باد دی جانی چاہیے۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ کسی جماعت نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ پنجاب میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ کا قلعہ توڑ دیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ یہاں ہمیشہ ایک دو جماعتی نظام رہا ہے اور جمہوریت اسی میوزکل چیئر کی یرغمال بنی رہی۔ اس نظام میں ایک تیسری قوت کا اس قدر قوت سے ابھر کر سامنے آنا نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔‘‘

انتخابات نئے مگر وعدے اور منشور پرانے

مسیحی اقلیت کے رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن معروف سکالر، پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو سے اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مرتبہ خصوصاﹰ پنجاب میں مسیحی اقلیت کا ووٹ مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ مسیحی اقلیت قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے مسلسل عمل میں شامل ہے۔ دوسری طرف ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اس مرتبہ تقریباﹰ تمام بڑی جماعتوں نے اپنی اشتہاری مہموں میں اقلیتوں کو بھی شامل کیا ہے اور ان کے مسائل کی بات کی۔ یہ بھی سماجی اور سیاسی امتزاج کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔‘‘ اقلیتوں کی نمائندگی کے نظام کے متعلق ان کا خیال تھا، ’’جہاں تک اقلیتوں کے لیے مخصوص نمائندگی کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتوں اور اقلیتوں دونوں کو کوشش کرنا ہو گی کہ وہ اچھی اور قابل قیادت کو منتخب کریں۔‘‘

اسی طرح ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق، ’’میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ رائے دہی کا عمل پر امن اور ہموار رہا اور کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ووٹر موجود تھے لیکن وقت ختم ہو گیا۔ ہمیں ووٹنگ عملے کی تعریف کرنی چاہیے کہ جو بہت گرمی میں بہت اچھا کام کر رہا تھا۔‘‘