1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق محفوظ ہے، عراقی مہاجرین واپس جائیں، جرمنی

صائمہ حیدر
13 فروری 2018

جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ عراق میں جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کی شکست کے بعد سلامتی کی صورت حال اس حد تک بہتر ہو چکی ہے کہ اب یورپ آنے والے عراقی مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2scR9
Irak Eliteeinheiten begleiten Flüchtlinge während Konflikten mit ISIS
اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں عراقی باشندے یا تو داخلی طور پر بے گھر ہوئے تھے یا پھر ملک چھوڑ کر یورپ اور دیگر ممالک کی طرف فرار ہو گئے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed

جرمنی میں ترقیاتی امور کے وزیر گیرڈ مولر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عراق میں جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف حاصل ہونے والی حالیہ فتوحات کے بعد جرمن حکومت نے وہاں تباہ شدہ دیہاتوں اور شہروں کی تعمیر نو کا عزم کر رکھا ہے۔ تاہم جرمن وزیر کے مطابق ایسا اس لیے کیا جائے گا تاکہ جرمنی آنے والے عراقی مہاجرین کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔

مولر نے اپنے بیان میں مزید کہا،’’ عراق میں سکیورٹی کی صورتحال پہلے ہی اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ اب ملک میں داخلی طور پر نقل مکانی کر جانے والے افراد بھی اپنے علاقوں میں واپس آسکتے ہیں۔‘‘

گیرڈ مولر کا کہنا ہے کہ وہ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ عراقی پناہ گزینوں کی جرمنی سے اپنے ملک واپسی کے تمام تر امکانات کے حوالے سے دونوں ممالک میں قریب تر تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ جرمنی میں عراقی مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے برلن حکومت کی توقعات پر بھی العبادی کے ساتھ ملاقات میں بات کی جائے گی۔

Europa Flüchtlinge Migration
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

جرمن وزیر ترقیاتی امور گیرڈ مولر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق کی تعمیر نو اور بحالی کے حوالے سے تحریک عراقی حکومت کی جانب سے آنی چاہیے۔

خیال رہے کہ عراقی شہر موصل اور اس کے نواحی علاقوں پر داعش کے جنگجوؤں نے 2014ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ قبضہ ان جہادیوں کی اس وسیع تر عسکری پیش رفت کے دوران ہوا تھا، جس کے نقطہ عروج پر داعش کو عراق اور ہمسایہ جنگ زدہ ملک شام کے وسیع تر علاقوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا تھا۔

 گزشتہ برس جولائی میں داعش کے شدت پسندوں کو عراق کے اس دوسرے سب سے بڑے شہر سے حتمی طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑ گئی تھی۔ یوں یہ شہر دوبارہ عراقی حکومت کے کنٹرول میں تو آ گیا تھا لیکن تب تک موصل کے کئی علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔

اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں عراقی باشندے یا تو داخلی طور پر بے گھر ہوئے تھے یا پھر ملک چھوڑ کر یورپ اور دیگر ممالک کی طرف فرار ہو گئے تھے۔