عراق: مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کا عدالت کے باہر دھرنا شروع
24 اگست 2022عراق کے دارالحکومت بغداد میں 23 اگست منگل کے روز ملکی سپریم کورٹ کو اس وقت اپنی تمام کارروائیاں معطل کرنی پڑیں، جب معروف شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے بہت سے حامیوں نے عدالت کے صدر دفتر کے باہر دھرنا شروع کر دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل اور وفاقی سپریم کورٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ''فون پر دھمکیاں '' ملنے کے بعد انہیں عدالتی کام کاج معطل کرنا پڑا۔
شیعہ عالم دین کے حامی عدلیہ سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے حامی پچھلے تین ہفتوں سے پارلیمنٹ کے باہر پہلے سے ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے الصدر نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے لیے ملکی عدلیہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔ تاہم عدالت نے انہیں جواب دیا کہ اسے ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
دھرنے پر رد عمل کیا رہا؟
سیاسی بدامنی کے درمیان ملک کے نگراں وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کو اپنے دورہ مصر، کو مختصر کرکے وطن واپس لوٹ آئے ہیں، جہاں وہ پانچ ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے تھے۔
کاظمی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے ''تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ پرسکون رہیں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے قومی بات چیت کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔''
گزشتہ ہفتے بھی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ سیاسی بحران پر بات چیت کی تھی۔ تاہم مقتدیٰ الصدر کے بلاک نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
عراق میں اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا ہے کہ وہ ''پرامن احتجاج'' کے حق کا تو احترام کرتا ہے لیکن ''ریاستی اداروں کے احترام'' پر بھی زور دیتا ہے۔
عراق: بغداد میں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا
ایک دیگر حریف شیعہ اتحاد 'کوآرڈینیشن فریم ورک' نے کہا کہ جب تک صدر کے حامی ''اداروں پر اپنے قبضے'' کو ختم نہیں کر دیتے، اس وقت تک وہ ''براہ راست بات چیت کے کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کریں گے۔''
صدر کے حامی کون ہیں اور وہ چاہتے کیا ہیں؟
مقتدیٰ الصدر ایک بااثر شیعہ عالم ہیں، جو ایک وقت عراق میں امریکی افواج کی مداخلت کے سخت دشمن تھے۔ عراق میں ان کے لاکھوں حامی ہیں اور وہ ملک کے اہم پاور بروکرز میں سے ایک ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں الصدر کا بلاک پارلیمنٹ میں سب سے بڑا دھڑا بن کر ابھرا تھا، تاہم اسے قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران اس گروپ نے اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ مخالف کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ سیاسی گروپ کرپشن اور بدانتظامی کے ساتھ ساتھ عراقی سیاست میں ایران کی مداخلت پر بھی تنقید کرتا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کے لیے عراقی وزیر اعظم کا دورہ تہران
صدر کے حامیوں کا اصرار ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ ان کا بلاک وزیر اعظم کو نامزد کر سکے۔ الصدر کے بلاک کے 73 قانون سازوں نے مہینوں کے سیاسی تعطل کے بعد جون میں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس کے برعکس حریف شیعہ گروپ 'کوآرڈینیشن فریم ورک' جسے تہران کی حمایت حاصل ہے، نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل ایک عبوری حکومت چاہتی ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)