عراق میں امریکی فوج کی تعداد میں مزید کمی
24 اگست 2010منگل کو امریکی افواج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یکم ستمبر سے جنگی مشن Operation New Dawn میں تبدیل ہوجائے گا جو دسمبر 2011ء تک جاری رہے گا۔ اس دوران امریکی افواج عراقی سکیورٹی اہلکاروں کو معاونت فراہم کرتی رہیں گی جس کے بعد وہاں سے امریکی افواج کا مکمل انخلاء ہوگا۔
2003ء میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے حکم پر عراق پر حملہ کیا گیا تھا جس کی ایک وجہ وہاں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی بتائی گئی تھی۔ عراق پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی بعث پارٹی کی حکومت میں وہاں فرقہ ورانہ خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ امریکی حملے کے نتیجے میں بغداد میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی وہاں امریکی افواج کا Combat Mission جاری رہا۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں امریکہ کے لگ بھگ ساڑھے چار ہزار فوجی مارے گئے ہیں۔ سات سال سے زائد عرصہ جاری رہنے والے اس مشن کے دوران بڑی تعداد میں عام عراقی شہری بھی بدامنی کے واقعات میں ہلاک ہوئے تھے۔
بش کے پیش رو، موجودہ امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عراق مشن کا خاتمہ کرکے فوج کو واپس امریکہ بلوالیں گے۔ اسی سلسلے میں 30 جون کو امریکی افواج نے عراق کے شہروں اور دیہاتوں سے انخلاء شروع کردیا تھا۔ جنوری 2009ء میں طے پانے والے دو طرفہ معائدے کے بعد سے عراق متعین امریکی افواج کی جانب سے وہاں یکطرفہ کاروائی نہیں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں وہاں موجود لگ بھگ 1 لاکھ 76 ہزار فوجیوں کی تعداد میں بتدریج کمی کا سلسلہ شروع ہوا۔
دوسری جانب رواں سال مارچ میں عراق میں پارلیمانی انتخابات کے بعد سے اب تک وہاں سیاسی بحران قائم ہے۔ عراق کے شیعہ وسنی فرقے اور کرد آبادی کے نمائندہ سیاستدان حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ انتخابات میں سیکولر نظریات کے حامل سابق وزیر اعظم ایاد علاوی کو معمولی برتری حاصل ہوئی تھی تاہم کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ موجودہ وزیر اعظم نوری المالکی اور ایاد علاوی کے مابین مذاکراتی سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت : شادی خان سیف