1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں حکومت مخالف مظاہرے، وزیر اعظم کی تنبیہ

2 جنوری 2013

عراق کے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی نے سنی مسلمانوں کی طرف سے حکومت مخالف مظاہروں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے البتہ ان کے کچھ مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/17C6Y
تصویر: dapd

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بغداد سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کے خلاف مظاہرے ایک ہفتے سے جاری ہیں۔

Irak Präsident Dschalal Talabani im Koma
صدر جلال طالبانیتصویر: Reuters

ہزاروں مظاہرین کا کہنا ہے کہ شیعہ وزیر اعظم کی حکومت سنی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے ان کے حقوق کو دبا رہی ہے۔ مظاہرین نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وزیر اعظم المالکی کی حکومت ہمسایہ ملک ایران کے زیر اثر آتی جا رہی ہے۔

ان مظاہروں کے تناظر میں اگرچہ وزیر اعظم نوری المالکی نے خبردار کیا ہے تاہم انہوں نے کچھ خواتین قیدیوں کو رہا کرنے کے مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق عراق کی اس تازہ ترین صورتحال کی وجہ سے ملک میں شراکت اقتدار کی ’نازک ڈیل‘ متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ملک میں اعتدال پسند طاقت سمجھے جانے والے صدر جلال طالبانی اسٹروک کا شکار ہونے کے بعد اس وقت جرمنی میں زیر علاج ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ مغربی صوبے انبار  میں ہزاروں مظاہرین نے شام اور اردن کو جانے والی ایک اہم شاہراہ کو بلاک کیا ہوا ہے۔ یہ صوبہ سنی مسلمانوں کا ایک گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

غیر ملکی عناصر پر الزام

Irak Premierminister Nuri al-Maliki
وزیر اعظم المالکیتصویر: AP

عراقی وزیر اعظم نورالمالکی نے اپنے ایک نشریاتی انٹرویو میں کہا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے غیر ملکی عناصر کا ایجنڈا کارفرما ہے۔ انہوں نے ان مظاہروں کو غیر آئینی بھی قرار دیا ہے۔

نوری المالکی نے مزید کہا، ’’ جو اس ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ وہ یہ خیال ہر گز نہ رکھیں کہ اس شاہراہ کو کھلوانے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں حکومت کو کوئی مشکل پیش آئے گی۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت اس معاملے پر انتہائی صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

دوسری طرف مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت سنی اقلیت کا ’استحصال‘ بند کرے۔ عراق میں 2003ء میں امریکی اتحادی افواج کے حملے سے قبل آمر صدام حسین کی موجودگی میں وہاں سنی مسلمانوں کا اثر ورسوخ زیادہ تھا۔ سنی مظاہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کو ختم کر دیا جائے کیونکہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

دریں اثناء مظاہرین اور حکومت کے مابین ثالثی مذاکرت کار سنی رہنما خالد الملا نے کہا ہے کہ وزیر اعظم ان کی ایک شرط ماننے پر تیار ہو گئے ہیں، ’’ہماری پہلی ملاقات میں  وزیر اعظم المالکی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جیل میں قید تمام خواتین کے لیے عام معافی کے لیے ایک حکم نامے پر دستخط کر دیں گے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ عراقی جیلوں میں اس وقت 920 خواتین قید ہیں، جن میں سے سات سو آزادی کی اہل قرار دی جائیں گی۔

 (ab/ai (Reuters