غزہ جنگ: گولڈسٹون رپورٹ کی توثیق
17 اکتوبر 2009قرارداد کے حق میں ارجنٹائن، برازیل، چین اور روس سمیت اکیس دوسرے ممالک نے ووٹ ڈالا جب کہ امریکہ، ہنگری، اٹلی، ہالینڈ، سلوواکیہ اور یوکرائن نے قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالا۔ بارہ دیگر ملک غیر حاضر تھے۔ برطانیہ، فرانس اور تین دوسرے ملکوں نے ووٹ کے عمل میں موجود ہوتے ہوئے بھی حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی جنیوا دفتر کی اڈواکسی ڈائریکٹر جولی ڈی ریو رو کا کہنا ہے کہ مندوبین میں اختلاف رائے موجود ہے کہ بقیہ تحقیقات کیسے ہو، ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ سلامتی کونسل کو بھیجا جائے یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو ریفر کیا جائے، تناعہ اپنی جگہ پر موجود ہے، لیکن اِس قرارداد کا پیغام واضح ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
قرارداد کی منظوری کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اِس کی منظوری سے مشرق وسطیٰ میں امن بات چیت کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے ابتداء میں رائے شماری کو ملتوی کرنے کی حمایت کی تھی لیکن اندرون خانہ شدید تنقید کے بعد اُس نے اپنے مؤقف سے دستبرداری فیصلہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی ہائی کمیشنر ناوی پلے نے قرارداد کی منظوری کے عمل کے دوران کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بریت کے کلچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ اسرائیل اور فلسطین میں یہ عام ہے۔
رپورٹ مرتب کرنے والے جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے جج رچرڈ گولڈ سٹون تے تجویز کیا ہے کہ فوجی ایکشن کے دوران جنگی جرائم، جن میں عام انسانی بستیوں کو بطور شیلڈ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ شہری آبادیوں کو شعوری طور پر نشانہ بنانے جیسےجرائم کی تفتیش، اسرائیل اور فلسطین کے بااعتماد ذرائع کریں، اگر بین الاقوامی وار کرمنل کے پراسیکیوٹرز یہ معاملے اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔ گولڈ سٹون نے انتہاپسند پسند تنظیم حماس کی راکٹ پھینکنے کی کارروائی کو بھی اِسی زمرے میں ڈالا ہے۔
قرارداد کی مخالفت میں اسرائیل کی جانب میں خاصی سفارتکاری بھی کی گئی اور کہا گیا کہ گولڈ سٹون رپورٹ غیر جانبدار ہے اور ایک قوم کے اُس حق کی نفی کی گئی جس کے تحت اُس نے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔ اسرائیل کے نمائندے کا یہ بھی کہنا تھا کہ رائے شماری میں گولڈ سٹون رپورٹ کی منظوری کم اورفلسطین کی حمایت یافتہ قرارداد کی منظوری زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔ امریکی نمائندے کا مؤقف تھا کہ اِس رپورٹ سے مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کے عمل کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کا کہنا تھا کہ فرانس اور برطانیہ کا ووٹ کے عمل میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ تین اہم مسئلوں پر بات چیت کے وسط میں ہیں، اِن میں آزاد انکوائری کا مطالبہ، غزہ میں انسانی بنیاد پر امداد کی ترسیل اور امن مذاکرات کی دوبارہ شروعات شامل ہے۔ ملی بینڈ کے مطابق ووٹ کا عمل اِس بات چیت کے دوران آ گیا اور اس میں شرکت سے خطے میں اعتماد اور بد اعتمادی کو فروغ حاصل ہونے کا امکان زیادہ تھا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اب انسانی حقوق کی کونسل میں قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیل پر عالمی دباؤ بڑھ سکتا ہے اور اقوام متحدہ بھی مزید کارروائی کے حوالے سے اِس رپورٹ پر کسی اپنے فورم پر بات کر سکتا ہے جو صورت حال کو پیچیدہ کر سکتی ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، رپورٹ پر منقسم رائے شماری کے باوجود مناسب انکوائری کے عمل کو روکنا محال ہو گا۔گولڈسٹون کی تفصیلی رپورٹ پانچ سو پچھتر صفحات پر مشتمل ہے۔