غزہ کی جنگ سعودی عرب کے لیے بڑھتا ہوا درد سر
20 فروری 2024سعودی عرب اس وقت ایک مشکل مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف اس کا سعودی فرسٹ وژن ہے اور دوسری جانب غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی حمایت اور ایک آزاد ریاست کے لیے ان کی جدوجہد کا ساتھ دینے کا عمل۔ ریاض اس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے، جس کے لیے اسے خطے میں استحکام کی ضرورت ہے۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ تیزی سے سعودی عرب کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو متاثر کر رہی ہے۔
جرمن تھنک ٹینک CARPO کے سینیئر محقق سباستیان سنز نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''سعودی عرب کے لیے توازن قائم رکھنا ایک انتہائی مشکل صورت حال بن گئی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اسلامی دنیا کے دو مقدس ترین مقامات کے محافظ ملک کے طور پر سعودی عرب کو موجودہ غزہ جنگ فلسطینیوں کے ساتھ سالوں کی کم وابستگی کو درست کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے جبکہ اسی دوران سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے قیام کی کوششیں بھی بڑھا رہا ہے۔‘‘
کئی مہینوں سے امریکی قیادت سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات کے قیام کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ ریاض نے ابھی تک اسرائیل کو بطور ریاست باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ امریکہ ان دونوں ممالک کے مابین سیاسی اور اقتصادی تعلقات میں بہتری کو خطے میں مزید استحکام کے لیے بھی ضروری سمجھتا ہے۔
تاہم حماس جسے جرمنی، یورپی یونین، امریکہ اور کچھ عرب ریاستیں بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہیں، کی طرف سے گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے سبب اسرائیل اور سعودی عرب کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ہیں لیکن اس عمل کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔
لندن میں قائم کنسلٹنگ کمپنی دی انٹرنیشنل انٹرسٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سامی حامدی نے ڈی ڈبلیو کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''یہ اصرار کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی اموات کے باوجود حالات کا معمول پر آنا اب بھی ممکن ہے، یہ تاثر دیتا ہے کہسعودی عرب کے لیے واقعی کوئی سرخ لکیریں نہیں ہیں، جن کی وجہ سے تعلقات کی بحالی کے عمل کو ترک کرنا پڑے۔‘‘
فلسطینی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، لیکن حماس بھی
جرمن انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سلامتی امور پیٹر لنٹل نے ڈی ڈبلیو کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، '' سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان میل جول کے دوران، ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ مسئلہ فلسطین غیر اہم ہوتا چلا گیا لیکن اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ تعلقات ایک بار پھر فلسطینیوں کے لیے ایک سیاسی حل سے منسلک ہو گئے ہیں۔‘‘
متعدد رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب نے فروری کے اوائل میں واشنگٹن سے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کو ''تسلیم نہیں کیا جاتا‘‘ اور اسرائیلی افواج غزہ سے نکل نہیں جاتیں۔
سعودی عرب کی نئی ''پوزیشننگ‘‘ اسرائیل کے غزہ کے سب سے جنوبی شہر رفح پر کارروائی شروع کرنے پر ریاض کی طرف سے دیے گئے تازہ ترین بیانات سے واضح ہوتی ہے۔ رفح غزہ کے 1.3 ملین سے زیادہ بے گھر باشندوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ اسرائیلی کارروائی کے تناظر میں گزشتہ ہفتے سعودی عرب نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ غزہ پٹی کے شہر رفح کو نشانہ بنانے کے بہت سنگین نتائج ہوں گے۔
جرمن تھنک ٹینک CARPO کے سینیئر محقق سباستیان سنز کا اس سعودی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ''رفح کے حوالے سے اسرائیلی کارروائی کی مذمت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
تاہم اس طرح کے نتائج یا اثرات کی تعریف و تشریح مختلف طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ دریں اثنا سعودی عرب کی نہ صرف سیاسی پوزیشننگ میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے بلکہ وہاں جذباتی صورت حال بھی بدل گئی ہے۔
سکیورٹی اور استحکام
لندن میں قائم کنسلٹنگ کمپنی دی انٹرنیشنل انٹرسٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سامی حامدی کہتے ہیں، ''سعودی عرب کی پہلی ترجیح 'وژن 2030ء‘ کے ذریعے موجودہ معاشی بحران کو حل کرنا ہے۔‘‘
وژن 2030 ء دراصل سعودیولی عہد محمد بن سلمان کا منصوبہ ہے جس کا بنیادی مقصد اس عرب بادشاہت میں سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں لانا ہے، اصلاحات کے ذریعے۔ مثال کے طور پر ایک ''اوپن سوسائٹی‘‘ یا آزاد معاشرہ تشکیل دے کر، خواتین کے کردار کو معاشرے میں اہم بناتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر تیل اور دیگر شعبوں جیسے کہ سیاحت، ٹیکنالوجی کے ذریعے مملکت کی آمدنی کو متنوع بنانے کی کوشش کرنا اس وژن کے اولین مقاصد ہیں۔
ک م/ع ا، م م (جینیفر ہولائس)