1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستفرانس

فرانس: عدم اعتماد کی تحریک میں ماکروں حامی حکومت گر گئی

5 دسمبر 2024

فرانسیسی وزیراعظم مشیل بارنیئر کے خلاف بدھ کو پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد منظور کرلینے کے ساتھ ہی صدر ایمانوئل ماکروں حامی حکومت گر گئی۔ ماکروں نے صرف تین ماہ پہلے بارنیئر کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4nlU1
وزیر اعظم مشیل بارنیئر کو صدر ایمانوئل ماکروں کی طرف سے اس عہدے پر مقرر کیے جانے کے بعد سے ہی  سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا
وزیر اعظم مشیل بارنیئر کو صدر ایمانوئل ماکروں کی طرف سے اس عہدے پر مقرر کیے جانے کے بعد سے ہی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑاتصویر: Sarah Meyssonnier/REUTERS

ارکان پارلیمنٹ نے مشیل بارنیئر کے خلاف تحریک کی حمایت میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ 577  رکنی پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے لیے 288 ووٹ درکار تھے، لیکن بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو نے مل کر عدم اعتماد کی تحریک کے موافقت میں331 ووٹ دیے۔

سن 1962 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب فرانس کی حکومت عدم اعتماد کے ووٹ میں گری ہے۔ موسم گرما میں اچانک انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں کسی ایک گروپ کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور اس نئی پیشرفت سے فرانس میں سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔

کیا فرانس میں جاری سیاسی ڈیڈ لاک ٹوٹ پائے گا؟

حزب اختلاف کی جماعتوں نے یہ تحریک اس وقت پیش کی جب سابق بریگزٹ مذاکرات کار برنیئر نے متنازعہ طور پر خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بغیر ووٹ کے اپنے بجٹ کو منظور کرانے پر مجبور کیا۔

بارنیئر اب اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کرنے کے پابند ہیں، اور وہ بجٹ جس نے ان کے زوال کا سبب بنایا غیر عملی ہو گیا ہے۔

ت‍حریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 288 ووٹ درکار تھے، لیکن تحریک کے موافقت میں331 ووٹ پڑے
ت‍حریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 288 ووٹ درکار تھے، لیکن تحریک کے موافقت میں331 ووٹ پڑے تصویر: Lafargue Raphael/abaca/IMAGO

مسئلہ برقرار رہے گا

پیرس میں ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار لیزا لوئس نے کہا کہ اگر ماکروں بلا تاخیر، شاید 24 گھنٹوں کے اندر، کسی نئے وزیر اعظم کا تقرر بھی کر دیتے ہیں، جیسا کہ ان کے کیمپ نے اشارہ دیا ہے، تب بھی اس بات کا خدشہ برقرار ہے کہ بارنیئر کے جانشین کو بھی وہی مسائل درپیش ہوں گے۔

فرانسیسی انتخابات: بائیں بازو کی بڑی جیت تاہم معلق پارلیمان

لوئس نے کہا، "یقینا اس سے فرانس کے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔" انہوں نے کہا، "یہاں ایک بہت بڑا سیاسی بحران ہے: یہاں تین بلاکس کے ساتھ ایک معلق پارلیمنٹ ہے، ان تینوں بلاکس میں سے کسی کی بھی پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے۔ اور فرانسیسی پارلیمنٹ کے اراکین کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل ہے۔ جس کا نتیجہ آج دکھائی بھی دیا۔"

لوئس کا کہنا تھا کہ بارنیئر ایک تجربہ کار اور ہوشیار سیاسی مذاکرات کار کے طور پر جانے جاتے ہیں، جس کی مثال بریگزٹ کے اہم مذاکرات کے طور پر ان کا کردار ہے۔ لیکن سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنا پہلا ہی بجٹ منظور کرانے میں ناکام ہو گئے اور صرف تین ماہ کے اندر ان کی حکومت گر گئی۔

باربنیئر نے لی پین کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے
باربنیئر نے لی پین کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکےتصویر: Michel Euler/AP Photo/picture alliance

بارنیئر نے کیا کہا؟

پیر کے روز صدارتی حکم نامے کے ذریعے بارنیئر کی جانب سے سماجی تحفظ میں اصلاحات نافذ کرنے کے اقدامات کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد، بائیں اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں، دونوں نے عدم اعتماد کی تحریکیں پیش کیں۔

فرانس: انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو برتری

پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والے بائیں بازو کے اتحاد نیو پاپولر فرنٹ (این ایف پی) نے اس سے قبل اپنے ہی امیدوار کے مقابلے میں سنٹرسٹ بارنیئر کو وزیر اعظم مقرر کرنے کے ماکروں کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔

انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی نے بھی بارنیئر کے تقریباﹰ پچاس ارب ڈالر خسارے کے بجٹ کی مخالفت کی تھی۔

نیشنل ریلی کی رہنما میرین لی پین نے بجٹ کو "فرانسیسیوں کے لیے زہر" قرار دیا۔

ووٹنگ سے قبل بارنیئر نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ انہیں عہدے سے ہٹانے سے ملک کے مالی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم سچائی اور ذمہ داری کی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا "ہمیں اپنے قرض کی حقیقتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے"۔ اور "یہ خوشی کی بات نہیں ہے کہ میں نے مشکل اقدامات تجویز کی ہے۔"

صدر ایمانوئل ماکروں
صدر ایمانوئل ماکروں کہا تھا کہ بدھ کو ہونے والی ووٹنگ کا جو بھی نتیجہ نکلے، وہ استعفیٰ نہیں دیں گےتصویر: Julien De Rosa/AFP/Getty Images

ماکرو‍ں کی صدارت متاثر نہیں ہو گی

ماکروں، جو سعودی عرب کے سرکاری دورے کے بعد فرانس واپس آئے ہیں، جمعرات کی شام قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب کرنے والے ہیں۔

وہ عدم اعتماد کی ت‍حریک کی کامیابی سے متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ فرانس میں صدر کے انتخاب کے لیے الگ سے ووٹنگ ہوتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ماکروں سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ماکروں نے کہا تھا کہ بدھ کو ہونے والی ووٹنگ کا جو بھی نتیجہ نکلے، وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ وہ ایک حکومت کے عدم وجود کی شرمندگی سے بچنے کے لیے بہت جلد ایک نئے وزیر اعظم کو نامزد کریں گے - کم از کم اس لیے بھی کہ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ہفتے کے آخر میں پیرس میں نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل کا دوبارہ افتتاح کرنے والے ہیں۔

ملک میں جولائی تک کوئی بھی نئے پارلیمانی انتخابات نہیں ہو سکتے۔ اس لیے پارلیمنٹ میں، جہاں کوئی بھی گروپ فی الحال ورکنگ اکثریت حاصل کرنے کی امید نہیں کر سکتا ہے، موجودہ تعطل جاری رہے گا۔

ج ا ⁄  ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)