فرانس کے سیکولر رہنے کی کوشش کے سکھوں پر اثرات
24 ستمبر 2013اب اس سرکاری مہم کی زد میں فرانس میں رہنے والے سکھ بھی آ گئے ہیں، جن کی یہ کوشش ہے کہ سکھ بچوں کو اپنی روایتی پگڑی پہن کر اسکول جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس موضوع کے ریاست اور فرانس میں رہنے والی سکھ برادری کے درمیان متنازعہ ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اس ریاستی اصول کے احترام کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ تمام سرکاری اداروں اور عوامی زندگی میں سیکولر طرز زندگی واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔ اس کے برعکس مذہبی سوچ کے حامل سکھوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مذہب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سکھ عقیدے کے پیروکار مرد سر کے بال لمبے رکھیں اور انہیں چھپائے رکھنے کے لیے اپنے سروں پر پگڑی بھی باندھیں۔
فرانسیسی وزیر تعلیم وِنسینٹ پائیوں Vincent Peillon نے ملک میں سیکولر سماجی سوچ سے متعلق ایک ایسا نیا چارٹر متعارف کرا دیا ہے جو لازمی طور پر ان تمام اسکولوں میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکے گا جن کا کا بجٹ حکومت کے مہیا کردہ مالی وسائل سے پورا کیا جاتا ہے۔
اس چارٹر کا مقصد اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں اور نوجوانوں پر آسان زبان اور دوستانہ لہجے میں یہ واضح کرنا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں یہودی بچوں کے لیے اپنے سروں پر روایتی ٹوپی پہننا یا ستارہء داؤد کا استعمال، سکھوں کے لیے پگڑی، مسیحی بچوں کے لیے صلیب کا پہننا اور مسلمان بچیوں کے لیے حجاب کا استعمال کیوں منع ہے۔
لیکن فرانس میں رہنے والے قریب تیس ہزار سکھ باشندوں کی دلیل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی لاعلمی کی وجہ سے اس فیصلے کا نشانہ بن رہے ہیں اور متاثر ہو رہے ہیں۔ فرانسیسی سکھوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے حال ہی میں اسکولوں میں سیکولر سماجی رویوں پر جو زور دینا شروع کیا ہے، وہ بنیادی طور پر مسلمان بچیوں کے حجاب کے استعمال کی مخالفت کی نتیجہ ہے۔
اس کے علاوہ اس عمل میں فرانس میں مسلمان آبادی کے ساتھ پائی جانے والی کشیدگی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی پورے یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک میں آباد مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ فرانس میں سکھ برادری کا دعویٰ ہے کہ وہ بلاوجہ سیکولر سوچ اور سرکاری اسکولوں میں مذہبی علامات کے استعمال پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کی زد میں آ گئے۔
فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں قائم سکھوں کے فرانس میں سب سے بڑے گردوارے کی انتظامی کمیٹی کے ایک رکن کشمیر سنگھ کہتے ہیں، ’’اس وقت ہماری فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے تاکہ انہیں سکھوں کی منفرد صورت حال سے آگاہ کیا جا سکے۔ ہمارا کام انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ سکھوں کو اس قانون کی لازمی پابندی سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔‘‘
کشمیر سنگھ کے مطابق فرانس میں آباد سکھ اس بارے میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے بھی ملاقات کر چکے ہیں جس دوران بھارتی سربراہ حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ پیرس حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ فرانس میں آباد سکھوں کے ساتھ اس حوالے سے انصاف کیا جائے۔
کشمیر سنگھ نے مزید کہا کہ فرانس میں سکھ بچے اب اپنے مذہب پر عملدرآمد کی وجہ سے اسکولوں سے خارج ہونے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘‘ یہودی کِپا، مسیحی صلیب اور مسلم حجاب لازمی نہیں بلکہ مذہبی علامات ہیں۔ اس کے برعکس سکھوں کے لیے سر کے لمبے بالوں اور پگڑی پر اس لیے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی مذہبی علامات نہیں بلکہ سکھ مت کا مقدس اور لازمی حصہ ہیں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فرانس میں قریب نو سال قبل اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے اب تک دس سکھ طلباء کو اسکولوں سے نکالا جا چکا ہے۔